اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی سرزمین اور گردونواح کے علاقے زمانہ قدیم ہی سے زلزلوں کا مرکز رہے ہیں۔ پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر موجود ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ کا سامنا کرتی ہے۔ ان دونوں پلیٹوں کے ٹکرانے سے ہی ہمالیہ کا پہاڑ وجود میں آیا ہے۔ یوریشین پلیٹ کے نیچے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ ہماری پلیٹ سال میں اوسطاً ڈیڑھ انچ شمال کو بڑھتی ہے لیکن یہ صرف اوسط ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس پلیٹ میں کوئی حرکت نہیں ہوتی، صرف اس پر دباؤکی مقدار میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جب یہ دباؤ ایک خاص حد سے آگے بڑھتا ہے تو پھر یہ چٹانیں زوردار جھٹکے سے کئی فٹ دور کھسک جاتی ہیں اور ان کے کھسکنے کے اس عمل سے جمع شدہ توانائی خارج ہوتی ہے۔ اس توانائی کا اخراج چٹانوں میں لہروں کی شکل میں اپنے مرکز سے پرے دائرے کی شکل میں ہوتا ہے، یہ لہریں چٹانوں اور ان پر واقع آبادیوں کو جھٹکے دیتی ہیں جس کے نتیجے میں عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں اور لوگ ملبے تلے دب کر ہلاک اور زخمی ہو جاتے ہیں۔ بعض دفعہ پلیٹوں کے کناروں کی بجائے ان کے درمیان بھی زلزلے آ سکتے ہیں، اور یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پلیٹ اپنے ہی وزن اور سائز کی وجہ سے کمزور ہو چکی ہوتی ہے اور اس میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ یہ دراڑ زلزلے کا باعث بنتی ہے۔ کشمیر میں 2005ء میں آنے والے زلزلے سے پہلے بلوچستان، کشمیر اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بڑے زلزلے آ چکے ہیں ان زلزلوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ انڈین پلیٹ کی آخری شمالی سرحد پر واقع پاکستانی علاقے کشمیر اور گلگت بلتستان زلزلے کے حوالے سے حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس خطے میں شدید نوعیت کے زلزلے آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی زلزلوں کے آنے کا قوی امکان ہے۔
کسی علاقے میں زلزلے کے امکانات دیکھنے کے لیے ایک خاص نقشے کی مدد لی جاتی ہے اسے سیسمک میپ کہتے ہیں، پاکستانی سیسمک زون میپ کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان زون فور میں شامل ہیں جہاں اکثر اونچے درجے کے زلزلے آتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سطح مرتفع پوٹھوہار کا علاقہ زون تھری ہے جس میں اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم اور چکوال جیسے بڑے شہر اس کا حصہ ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ، چمن، لورالائی اور مستونگ کے شہر زیرِ زمین انڈین پلیٹ کے مغربی کنارے پر واقع ہیں،
اس لیے انہیں ہائی رسک زون یا زون فور کہا جاتا ہے۔ اس زون میں بڑے اور درمیانے درجے کے بہت سے زلزلے آ چکے ہیں۔ اس سے ملحقہ علاقے زون تھری میں شمار ہوں گے۔ ہمارے ملک کے بڑے حصے میں درمیانے درجے کے زلزلے کے خدشات موجود ہیں۔ شمالی پنجاب، بالائی سندھ اور خاران زون ٹو میں شامل ہیں۔ دنیا نیوز کے مطابق محکمہ موسمیات کے جیوفیزیکل سنٹر نے زلزلے کی فریکوئنسی کا جو نقشہ بنایا ہے اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے وسیع علاقے چھوٹے، درمیانے اور بڑے زلزلوں سے اکثر دوچار رہتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہر کراچی اور لاہور ابھی تک بڑے زلزلے سے محفوظ ہیں مگر یہاں بھی زلزلے آنے کا امکان موجود ہے۔