آج کوئی چھاؤں میں اسلئے بیٹھا ہے کیونکہ برسوں پہلے کسی نے وہاں درخت بویا تھا ظاہر پر نہ جانا‘ آگ دیکھنے میں سرخ نظر آتی ہے مگر اس کا جلا یا سیاہ ہو جاتا ہےدستک کی آواز پر دروازہ ضرور کھولو‘ ہو سکتا ہے خوش نصیبی منتظر ہو اور ایک بار نہ کھولنے پر ایسا روٹھے کہ پھر دکھائی نہ دے۔مشاہدے سے آپ بہت کچھ جان سکتے ہیں مگر سیکھتے تجربے سے ہی ہیں۔تنہائی اچھی چیز ہے مگر تنہائی اور حساسیت مل جائیں تو آنسوؤں کے طوفان میں انسان کا وجود فنا ہو سکتا ہے۔سکھ خوشی کا نام نہیں‘
غم اور خوشی دونوں سے بے نیاز ہونے کا نام ہے۔ کہنے والا یقین سے محروم ہو تو سننے والا تاثیر سے مرحوم رہتا ہے۔جھکی ہوئی شاخ پھل دار ضرور ہوتی ہے مگر زیادہ جھکی ہوئی شاخ راستہ چلنے والوںراستہ چلنے والوں کیلئے مسئلہ بھی بن سکتی ہے۔موت کو یاد رکھنانفس کی تمام بیماریوں کی دعا ہے۔آنسوؤں کو مسکراہٹ میں بدل دو تو زندگی میں خوشیاں تلاش کرنا آسان ہو جاتا ہے۔علم کی طلب میں شرم مناسب نہیں‘ جہالت شرم سے بدتر ہے۔کوئی آئینہ انسان کی اتنی حقیقی تصوری پیش نہیں کرتا جتنی کہ اس کی بات چیت۔