حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں میں مسجد میں حضرت عثمانؓ کے پاس سے گزرا میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے مجھے آنکھ بھر کر دیکھا بھی لیکن میرے سوال کا جواب نہ دیا۔ میں امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں گیا اور میں نے دو دفعہ یہ کہا اے امیرالمومنین! کیا اسلام میں کوئی نئی چیز پیدا ہو گئی ہے؟ حضرت عمرؓ نے پوچھا کیا ہوا؟
میں نے کہا اور تو کوئی بات نہیں البتہ یہ بات ہے کہ میں ابھی مسجد میں حضرت عثمانؓ کے پاس سے گزرا۔ میں نے ان کو سلام کیا انہوں نے مجھے آنکھ بھر کر دیکھا بھی لیکن میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ حضرت عمرؓ نے آدمی بھیج کر حضرت عثمانؓ کو بلوایا اور (جب حضرت عثمانؓ آ گئے تو) ان سے فرمایا آپؓ نے اپنے بھائی (سعدؓ) کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ حضرت عثمانؓ نے کہا میں نے تو ایسا نہیں کیا۔ میں نے کہا آپ نے کیا ہے۔ اور بات اتنی بڑھی کہ انہوں نے اپنی بات پر قسم کھا لی اور میں نے اپنی بات پر قسم کھا لی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عثمانؓ کو یاد آ گیا تو انہوں نے فرمایا استغفراللّٰہ و اتوب الیہ آپ میرے پاس سے ابھی گزرے تھے۔ اس وقت میں اس بات کے بارے میں سوچ رہا تھا جو میں نے حضورؐ سے سنی تھی اوروہ بات ایسی ہے کہ جب بھی مجھے یاد آتی ہے تو میری نگاہ پر اور میرے دل پر ایک پردہ پڑ جاتا ہے (جس کی وجہ سے نہ کچھ نظر آتا ہے اور نہ کچھ سمجھ آتا ہے)۔میں نے کہا میں آپ کو وہ بات بتاؤں ایک مرتبہ حضورؐ نے دعا کے ابتدائی حصہ کا تذکرہ فرمایا (کہ دعا کے شروع میں اسے پڑھنا چاہیے) اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور حضورؐ اس سے باتوں میں مشغول ہو گئے پھر حضورؐ کھڑے ہو گئے (اور چل پڑے) میں بھی آپ کے پیھچے چل دیا پھر مجھے خطرہ ہوا کہ میرے پہنچنے سے پہلے کہیں حضورؐ گھر کے اندر نہ چلے جائیں
اس لیے میں نے زمین پر پاؤں زور سے مارے اس پر حضورؐ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ کون ہے (کیا) ابو اسحاق ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ حضورؐ نے فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اور تو کوئی بات نہیں ہے بس یہ بات ہے کہ آپ نے دعا کے ابتدائی حصہ کا تذکرہ کیا پھر یہ دیہاتی آ گیا تھا اور آپ اس سے باتوں میں مشغول ہو گئے تھے۔حضورؐ نے فرمایا ہاں وہ مچھلی والے (حضرت یونس) علیہ السلام کی دعا ہے جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی۔ لاالہ الاانت سبحانک انی کنت من الظلمین ان کلمات کے ساتھ جو مسلمان بھی دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔