گاؤں کی دکان میں ایک عورت مغموم چہرے کے ساتھ داخل ہوئی اور دکاندار سے کہنے لگی؛ “میرے شوہر چند دن سے بیمار ہیں اور کام پر نہ جانے کی وجہ سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں بچا ہے۔ میرے بچے بھوکے ہیں۔ بہت مجبور ہو کر آپ کے پاس آئی ہوں کہ خدا کے لئے کچھ کھانے پینے کی چیزیں مجھے قرض پر دے دیں۔ جب میرے شوھر کو اللہ شفا بخشے گا تو آپ کے پیسے لا کر دے دوں گی۔
دکاندار نے رُوکھے پن سے جواب دیا؛ “یہ دکان ہے کوئی خیرات خانہ نہیں ہے۔ جاؤ کہیں اور سے بھیک مانگو۔” دوکان میں ایک گاہک یہ سب سن رپا تھا اُس نے دوکاندار سے کہا کہ وہ خاتون کو کھانے پینے کی جو اشیا وہ چاہ رہی ہیں دے دے، پیسے وہ ادا کر دے گا۔ دوکاندار یہ سن کر شرمندہ ھوا اور خاتون کے سامنے کاغذ اور قلم رکھ کر کہنے لگا: “میں صرف اِس شرط پر تمہاری ضرورت کی اشیا دوں گا کہ تم اُنہیں کاغذ پر لکھ دو اور ترازو کے پلڑے پر رکھ دو۔ تمہاری تحریر کا جتنا وزن ہو گا اُتنا سامان میں مفت میں تمہیں دے دوں گا۔” خاتون نے کاغذ اور قلم اُٹھایا، اُس پر کچھ لکھا اور کاغذ ترازو کے پلڑے پر رکھ دیا۔ دکاندار کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں جب اُس نے دیکھا کہ کاغذ والا پلڑا نیچے چلا گیا ہے۔ اُس نے ترازو کے دوسرے پلڑے پر سامان رکھنا شروع کر دیا اور آھستہ آھستہ دونوں پلڑے برابر ھونے لگے۔ جب دونوں پلڑے برابر ھوئے تو دوکاندار نے سامان خاتون کے حوالے کیا اور وہ اللہ کا شکر ادا کر کے باہر نکل گئی۔ دوکاندار نے اُس کے جانے کے بعد کاغذ کو کھول کر پڑھا تو اُس پر یہ مختصر جملہ لکھا ہوا تھا؛ “اے میرے پیارے پروردگار! تم میری ضروریات سے آگاہ ہو، تم ھی اُسے پورا کر دو۔