دنیا کی امیر ترین لڑکی زندگی سے زیادہ خوش نہیں۔ اس کی ازدواجی زندگی بڑی تلخ تھی، اس سبب شادی سے تھوڑے عرصے بعد وہ اپنے شوہر سے الگ ہو گئی۔ اسے اکثر بے چاری امیر لڑکی کہا جاتا تھا کیونکہ جہاں کہیں بھی وہ جاتی۔ اخباروں کے نمائندے اور کیمرہ مین سائے کی طرح اس کاپیچھا کرتے ہیں، جب کبھی بازار میں اس نے کوئی چیز خریدنے جانا ہوتا ہے اس کے ہمراہ اس کاحفاظتی دستہ ہوتا ہے۔
اس کی بہت ساری جاگیریں ہیں۔ چار امریکہ میں اور ایک فرنچ رویرا کے کنارے پر۔ نیو جرسی میں پانچ ہزار ایکڑ پر مشتمل اس کا فارم خوبصورتی کے لحاظ سے تمام فارموں سے سبقت لے گیاہے۔اس کے باوجود اپنی شادی سے ایک ہفتہ پہلے جب وہ پام بیچ پر نہا رہی تھی تو اس نے تین سال پرانا نہانے والالباس پہن رکھا تھا۔ اتنی ساری دولت کے باوجود اس نے اپنی شادی کی رسم ایک چھوٹے سے مکان میں آگ کے الاؤ کے سامنے نہایت سادہ انداز میں ادا کی۔ ڈورس ڈیوک اتنی بڑی جائیداد کی مالک کیسے بن گئی۔ یہ سب دولت دھویں سے بنی ہے۔ سگریٹ کے دھویں سے۔ ڈورس ڈیوک کے لکھ پتی ہونے کی داستان خانہ جنگی کے اختتام سے شروع ہوتی ہے۔ جنوبی امریکہ کے لیے وہ دن بڑے تلخ تھے۔ فوجوں نے کھیت ویران کردیے تھے۔ لوگ بے حد تکلیف میں تھے اور چائے اور کافی کے بدلے اخروٹ، کپاس کے بیج اور رس بھری کے پتے ابال کر پیتے تھے۔ ڈورس ڈیوک کا دادا، واشنگٹن ڈیوک، جنرل لی کی قیادت میں لڑا۔ اسے قید میں سخت تکالیف اٹھانی پڑی تھی۔ جب لی نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ درہام ’’نارتھ کیرونیا‘‘ واپس چلا آیا۔ ویران کھیتوں میں فقط ایک فصل کھڑی رہ گئی تھی۔ وہ تھی تمباکو کی فصل، واشنگٹن ڈیوک نے تمباکو کی فصل کاٹی، اسے خشک کیا، گاڑی میں لادا اور اپنے دو بے ماں کے بچوں کے ہمراہ دنیا کو فتح کرنے چل پڑا۔
اور عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے تمباکو کی دنیا فتح کر لی اور تمباکو کی ایک ایسی سلطنت قائم کی، جس کی حدود میں ساری دنیا آ گئی۔وہ تمباکو سے بھری ہوئی گاڑی لے کر ریاست کے جنوبی حصے کی طرف چل پڑے۔ جہاں تمباکو کی کمی تھی۔ وہاں انہوں نے لوگوں سے تمباکو کے بدلے گوشت اور کپاس لی۔ رات کے وقت انہوں نے سڑک کے کنارے ڈیرہ ڈال لیا۔ گوشت اور آلو بھون کرکھائے اور ستاروں کی چھاؤں میں سو گئے۔
اس زندگی میں انہیں بڑا مزہ آیا۔ لہٰذا انہوں نے تمباکو کی فروخت کو اپناپیشہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں تمباکو کی منڈی میں سخت مقابلے کا سامنا کرناپڑا۔ سینکڑوں امیر کمپنیاں پائپ کا تمباکو پہلے سے بنا رہی تھیں۔ جیمز بھمپنی ڈیوک ڈورس، ڈیوک کا باپ جانتا تھا کہ تمباکو کی مارکیٹ پر قبضہ جمانے کے لیے اسے فوری طور پر کوئی نیا اقدام کرنا ہوگا ورنہ وہ بھوکے مریں گے۔
آخر اسے ایک ایسا خیال سوجھا جس کے ذریعے انہوں نے 20,000,000 پونڈ کمائے۔ اس نے سگریٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ ممکن ہے آج یہ خیال اتنا منفرد دکھائی نہ دے۔ جب کہ امریکی ہرسال ایک سوپچیس ارب سگریٹ پیتے ہیں لیکن 1881ء میں یہ بات نئی تھی۔ روسی اور ترکی کئی برس سے سگریٹ پی رہے تھے اور جنگ کریمان سے واپسی پر برطانوی اپنے ہمراہ سگریٹ لائے تھے لیکن امریکہ جہاں پہلے پہل تمباکو کی کاشت ہوئی تھی۔
1867ء تک سگریٹ سے نا آشنا تھا۔جب بک ڈیوک نے سگریٹ بنانے شروع کیے تو اس زمانے میں سگریٹ ہاتھ سے بنائے جاتے تھے۔ اس نے ایک ایسی مشین ایجاد کی جو ایک دن میں اڑھائی ہزار کی بجائے دس لاکھ سگریٹ بنانے لگی تھی۔ سگریٹ کی پہلی ڈبیا کا ڈیزائن بھی اسی نے تیار کیاتھا۔اس ایک نئی بات سے اسے اپنے کاروبار میں بے حد کامیابی حاصل ہوئی۔ جب حکومت نے تمباکو پر سے ٹیکس کم کر دیا تو بک ڈیوک نے سگریٹوں کی قیمت کم کرکے اپنے حریفوں کوپریشان کر دیا۔
پھر اس نے تمباکو کی نئی منڈیاں تلاش کرنی شروع کردیں، جب وہ نیو یارک میں سگریٹوں کی نئی فیکٹری قائم کرنے کے لیے آیا تو اس کی عمر فقط ستائیس سال تھی۔ وہ اپنے آپ کو مخاطب کرکے اکثر کہا کرتاتھا۔ اگر ’’جون، ڈی راک فیلر‘‘، ’’تیل کا بادشاہ‘‘ کہلا سکتا ہے تو میں ’’تمباکو کا بادشاہ‘‘ کیوں نہیں کہلا سکتا۔ لہٰذا اس نے اپنے منافع کاروبار میں لگادیا۔ جب وہ ایک سال میں دس ہزار پونڈ کما رہا تھا،
اس زمانے میں بھی وہ زیادہ سے زیادہ روپیہ کاروبار میں لگانے کے لیے کم خرچ کرتا اور ایک سستے ہوٹل میں رہتا۔ اس کے ایجنٹ دنیا کے دوردراز علاقوں میں جا رہے تھے۔وہ صبح سے رات گئے تک اپنی فیکٹری میں کام کرتا اور سارے کام کی نگرانی خود کرتا۔جب وہ مرا تو 20,000,000 پونڈ چھوڑ گیاتھا۔ وہ اس بات پر فخر کرتاتھا کہ اس نے امریکہ میں سب سے زیادہ لاکھ پتی بنائے ہیں۔ وہ فقط چارپانچ برس سکول گیا۔
ایک دفعہ اس نے کہا تھا ’’کالج کی تعلیم‘‘ مبلغوں اور وکیلوں کے لیے ٹھیک ہے لیکن مجھے اس سے کیا فائدہ پہنچنا تھا؟ کاروبار میں اعلیٰ دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘وہ اپنی ترقی کی وضاحت اس طرح کرتا تھا کہ ’’میں کاروبار میں اس لیے کامیاب نہیں ہوا کہ دوسروں کی نسبت مجھ میں کاروباری صلاحیت زیادہ ہے بلکہ میں نے فقط زیادہ محنت کی ہے۔ میں نے اپنے سے زیادہ صلاحیتوں کے مالک لوگوں کو کاروبار میں ناکام ہوتے دیکھا ہے۔
بات صرف اتنی ہے کہ ان میں قوت ارادی نہیں ہوتی۔‘‘یہ عجیب بات ہے کہ یہ شخص جسے تعلیم کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے ایک یونیورسٹی کے قیام کے لیے 80,000 پونڈ دیے۔ اس یونیورسٹی کا ڈیوک یونیورسٹی ہے اور وہ درہام میں ہے۔ اس کے ٹرسٹ کے ارکان میں ڈورس ڈیوک بھی شامل ہے۔’’بک ڈیوک‘‘ کو شہرت سے نفرت تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں فقط ایک انٹرویو دیاتھا۔ اس انٹرویو میں ایک رپورٹر نے اس سے پوچھا کہ ’’مسٹرڈیوک‘‘ کیا اتنی دولت آپ کے لیے اطمینان قلب کا باعث ہے۔‘‘بک ڈیوک نے اپنے سر کو جھٹکا دے کر کہا۔ ’’نہیں ہرگز نہیں!‘‘