ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ آپ کے خیال میں دنیا میں اپنے وقت کا سب سے زبردست آ دمی کون گزرا ہے؟ بلاشبہ خیال اپنا اپنا، پسند اپنی اپنی، لیکن ایک بات بالکل سچ ہے کہ روپے کی دنیا میں سب سے زبردست آدمی جے پیر پونٹ مورگاں، وال سٹریٹ کا آمر اورسٹاکس اور باونڈزکی دنیا کا شہنشاہ تھا۔لیکن اس کے باوجود بطور ایک فرد کے وہ بالکل غیر معروف تھا۔ اگر میں اسے پراسرار بھی کہوں تومبالغہ نہیں ہوگا۔
وہ پبلسٹی یا ذاتی شہرت سے بہت گھبراتا تھا۔ اسے تصویریں کھنچوانے تک سے تو خوف آتا تھا۔جب وہ غصے میں آتا تو آپے سے باہر ہو جاتاتھا وہ اس قدر صاف گو تھا کہ اسے امریکہ کا سب سے زیادہ کھرا آدمی کہا جاتا تھا۔چھ فٹ لمبا اور دو سو پونڈ وزن کایہ جسیم شخص کبھی خوف زدہ یا ہراساں نہیں ہواتھا۔ مثال کے طور پر ایک روز ایک خبطی آدمی دیوار پھلانگ کر اس کے گھر داخل ہوگیا۔ اس نے بندوق کی نالی جے پیرپونٹ مورگاں کی طرف موڑی اور اسے دھمکی دی کہ وہ اسے قتل کر دے گا۔ مورگاں چاہتا تو اسے چکمہ دے کر ایک قریبی دروازے سے فرار ہو جاتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ سیدھا بندوق کی طرف بڑھتاگیا۔ اگلے ثانیے میں ایک دھماکہ ہوا۔ مورگاں لڑکھڑایا، گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ اس نے ہمت نہ ہاری اور آگے بڑھتا گیا۔ وہ پاگل آدمی پر جھپٹا اور اس کے ہاتھ سے بندوق چھین لی۔ اس کے بعد وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ اسے سٹریچر پر ڈال کر ہسپتال پہنچایاگیا وہ موت سے بال بال بچ گیا تھا۔اس کے بعد کسی عام آدمی کے لیے ناممکن ہو گیا تھا کہ وہ 23 وال سٹریٹ میں سونے کے اس بادشاہ تک رسائی حاصل کر سکے۔ وہ پراسرار دفتر جو گوشے کے نام سے مشہور تھا۔ تاریخی مقامات کی سیر کرانے والے گائیڈ آج بھی سیاحوں کو اس عمارت کے سامنے والے حصے پر گولیوں کے نشانات دکھانا نہیں بھولتے۔
یہ نشانات 1916ء کی اس تباہی کی یادگارہیں۔ جس میں چالیس افراد ہلاک اور دو سو زخمی ہوئے تھے اور جس سے 400,000 پونڈ کی جائیداد کو نقصان پہنچا تھا۔ یہ حادثہ دوپہر بارہ بجے ہواتھا۔ لوگ ہنستے کھیلتے دفتروں سے نکل رہے تھے اور کسی کو یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ مورگاں کے دفتر کے باہر ایک پرانی بگھی کس مقصد کے لیے کھڑی ہے۔ یکایک زبردست روشنی ہوئی، پھر ایک خوفناک دھماکہ جس سے بڑی بڑی عمارتیں ہل گئیں۔
ایک بم پھٹا، جس میں سو پونڈ ٹی این ٹی تھی۔ گلی میں موت کا جشن شروع ہو گیا۔ہزاروں کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہو کر فٹ پاتھ پر جا گرے۔ بارہ منزلہ عمارت میں شعلے بھڑکنے لگے۔فٹ پاتھ سے تیس فٹ کی اونچائی پر کھڑکیوں سے ہاتھ پاؤں حتیٰ کہ کھوپڑیاں نیچے گر رہی تھیں۔چیختے چلاتے خون میں لتھڑے انسان ادھر ادھر بھاگتے ہوئے موت کاشکار بن رہے تھے۔آگ بجھانے والے انجنوں کی گھنٹیوں اور ایمبولینس کے شوروں نے اس تباہی کو اورخوف ناک بنا دیا تھا۔
جب تباہی ختم ہوئی تو اس گھوڑا گاڑی میں سے جس میں بم لایاگیاتھا۔ صرف پہیے کا ایک حصہ۔ گھوڑے کے پاؤں کے دو نعل اور کچھ پرزے باقی رہ گئے تھے۔ لیکن مورگاں جس کے لیے یہ سارا کھیل کھیلا گیاتھا۔ اس وقت یورپ میں تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر دم لے گا۔ خواہ اس کے لیے اسے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔اس کام کے لیے 10,000 پونڈ کا انعام رکھاگیا، پولیس فیڈرل ایجنٹوں، خفیہ پولیس اور پرائیویٹ سراغ رسانوں نے اتنے بڑے پیمانے پر چھان بین کا سلسلہ شروع کیا۔
جس کی مثال دنیا میں بہت کم ملتی ہے۔ دنیا کا کونا کونا چھانا گیا۔ باہر جانے والے بحری جہازوں کی تلاشی لی گئی۔ اس طرح کینیڈا اور میکسیکو کی سرحدوں کی چھان بین ہوئی، نیو یارک، شکاگو اوردوسرے شہروں کا چپہ چپہ دیکھا گیا۔ اس تگ و دو میں شاہی خزانے جتنی دولت برباد ہوئی، لیکن پھر بھی ساری کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ آج اس واقعہ کو تیس برس ہو چکے ہیں لیکن راز ابھی تک راز ہے۔
اس واقعہ کے بعد دو مسلح سراغ رسانوں کو مورگاں کے دفتر کے باہرنگرانی پر مامور کیا اور نچلی عمارت کی چھت کو فولاد کی موٹی تہوں سے ڈھانپ دیاگیا تاکہ آس پاس سے بم پھینک کر اسے نقصان نہ پہنچایا جا سکے۔ اس فولادی عمارت کے اندر سب سے محفوظ کمرے میں سکولوں کی طرح آگے پیچھے قطار میں دو میزیں بچھی ہوئی ہیں اور ان کے پیچھے فرم کا سربراہ مورگاں بیٹھا ہوتا تھا جیسے کوئی استاد جماعت کی نگرانی کر رہا ہو۔
دنیا کی تاریخ میں آج تک کسی اور بنک نے مورگاں کی طرح قوم کے مالی امور میں اتنی اہم خدمات انجام نہیں دیں۔ یہاں تک کہ میڈکس آف فلارنس یاروتھ چائلڈز کوبھی اتنی نیک نامی نصیب نہیں ہوئی، روتھ چائلڈز نے یورپ کو نپولین کی یلغار سے بچایا تھا لیکن مورگاں بنک نے وہ مالی استحکام دیا کہ جس سے اتحادیوں کو پہلی جنگ عظیم میں فتح نصیب ہوئی۔ 1915ء میں مورگاں اینڈکمپنی نے اتنی بڑی مالیت کے غیر ملکی قرضے جاری کیے۔
جس کا کبھی تصور نہ کیاگیاتھا۔ اس طرح جنگ میں اپنے ملک کی مدد کرنے کے لیے ایک ارب پونڈ سمندر پار بھیجے۔ مورگاں کمپنی نے امریکہ میں اتحادی فوجیوں کے لیے ضروری اشیاء کی فراہمی کا ٹھیکہ لے لیا۔ انہیں اربوں اور کھربوں پونڈ کی مالیت کے ہتھیار اور دوسری ضروری اشیاء خرید کردیں۔ جے پی مورگاں لندن بھی اتنا ہی عزیز تھا جتنا کہ نیو یارک، اپنے باپ کی زندگی میں کئی برس تک وہ لندن میں مورگاں کمپنی کی شاخ کا سربراہ رہا تھا اور جب وہ وال سٹریٹ نیو یارک واپس گیاتو اس نے وہاں سہ پہر کی چائے کا انگریزی طریقہ رائج کیا۔
اپنی موت سے پہلے 1943ء میں اس نے گراس ویز سکویر میں ایک شان دار مکان بنوایاتھا۔ وہ اپنے گھر میں نوکروں کی فوج اور خوراک کا ذخیرہ رکھتا تھا تاکہ وہ کسی وقت بھی گھر آ جائے خواہ مہینوں کی غیر حاضری کے بعد۔۔۔ تو کھانے کی میز کو تیار پائے۔ آتش دانوں میں آگ جل رہی ہو اورچارپائی پر بستر لگا ہو۔ مسٹر مورگاں کی شہرہ آفاق لائبریری میں اس وقت اس قسم کے ہزاروں نایاب مسودے ہیں، جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے سے پانچ سو برس پہلے کے ہیں۔
اس کے شیکسپیئر کے قلمی نسخے اور گٹن برگ بائبل کی ایک جلد بھی تھی۔ اس ایک کتاب کی قیمت غالباً 40,000 پونڈ تھی۔ جے پی مورگاں کے متعلق مشہور تھا کہ وہ شیکسپیئر اور بائیبل سے پوری واقفیت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسے میری اور آپ کی طرح جاسوسی ادب سے بہت دل چسپی تھی۔ اپنے باپ کی طرح جو مورگاں لاثانی کے لقب سے مشہور تھا۔ وہ بھی آرٹ کا بہت قدر دان تھا۔
اس نے تصویروں، مجسموں اور ہیرے جواہرات پر بے حد دولت صرف کی اور جب اس نے بعض اپنی نادر تصویریں فروخت کیں تو اخباروں نے اس خبر کو نہایت جلی عنوانات سے شائع کیا۔ہر کرسمس کے موقع پر مورگاں لائبریری میں ایک عجیب و غریب رسم ادا کی جاتی تھی۔ بیٹے، پوتے اور بعض بے تکلف دوست ایک جگہ اکٹھے ہو جاتے اور سکورج کی کہانی سنتے۔ یہ کہانی چھپی ہوئی کتاب سے نہیں بلکہ ڈکنز کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے نسخے سے پڑھ کر سنائی جاتی۔
اتنی امارت کے باوجود مورگاں کی بیشتر تفریحات بہت سادہ تھیں۔ مثال کے طور پر اسے اس بات کا بہت شوق تھا کہ وہ بارش میں پرانا ہیٹ اور کوٹ پہن کر بازار میں پھرے۔اسے اپنی بیوی سے بہت محبت تھی اس کی وفات کے بعد اس نے اس کا کمرہ جوں کاتوں رکھا۔ یہ عورت اس عجیب و غریب بیماری کا شکار ہوئی تھی جو خواب آور مرض کہلاتا ہے اور مورگاں کی اتنی دولت اسے موت کی آغوش سے نہ بچا سکی تھی۔ اس کی بیوی کوپھولوں سے عشق تھا اور وہ ایک ایسے کلب کی ممبر تھی جس کے ارکان اپنے ہاتھوں سے باغبانی کرتے تھے اور جے پی مورگاں بھی جو دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے تھا۔ بیوی کی موت کے بعد پرانے کپڑے پہن کر باغ کی کیاریاں درست کیا کرتا تھا۔