بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

اینڈریو کارنیگی،وہ کروڑ پتی تھا مگر اکثر کہا کرتاتھا کہ دولت مند مرنا ایک ذلت سے کم نہیں

datetime 11  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اینڈریو کارنیگی کے والدین اس قدر غریب تھے کہ اس کی پیدائش کے وقت نہ تو کسی ڈاکٹر کو بلایا گیا اور نہ ہی کسی دایہ کو۔ جب روزی کمانے کا وقت آیا تو وہ ایک پینی فی گھنٹہ کے حساب سے ملازم ہو گیا۔ اس نے 800,000000 کروڑ پونڈ کمائے۔ایک دفعہ مجھے سکاٹ لینڈ میں وہ مکان دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ وہ مکان فقط دو کمروں پر مشتمل تھا۔

اس کا باپ نچلے کمرے میں کھڈی کا کام کرتاتھا اور بالائی کمرے میں گھر کے افراد کھانا وغیرہ پکاتے اور وہیں سوتے تھے۔جب اینڈریو کارنیگی کا کنبہ امریکہ میں آیا تو اینڈریو کا باپ میز پوش بناتا تھا۔ اور انہیں فروخت کرنے کے لیے گھر گھر پھرتاتھا۔ اس کی والدہ دوسروں کے گھروں میں کپڑے دھوتی اور ایک موچی کے ہاں جوتوں کی سلائی کرتی تھی۔ اینڈریو کے پاس فقط ایک قمیض ہوتی تھی۔ جب وہ رات کو بستر میں گھس جاتا تو اس کی والدہ ہر رات وہ قمیض دھو کر استری کرتی تھی۔ وہ ہررات سولہ سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتی تھی۔ اسے اپنی ماں سے بے حد محبت تھی جب وہ بائیس برس کا تھا تو اس نے اپنی والدہ سے وعدہ کیا کہ وہ اس کے جیتے جی ہرگز شادی نہیں کرے گا۔ وہ اپنے وعدے کاپورا نکلا۔ اس وعدے کے تیس برس بعد اس کی والدہ نے وفات پائی۔ باون برس کی عمر میں اس نے شادی کی اور باسٹھ سال کی عمر میں اس کے ہاں پہلا اور اکلوتا بچہ پیدا ہوا۔جب وہ لڑکا تھاتو اکثر اپنی والدہ سے کہا کرتا تھا ’’ماں میں ایک دن امیر ہو جاؤں گا پھر تمہیں ریشمی لباس اور ایک گاڑی خرید دوں گا۔‘‘ وہ اکثر کہا کرتاتھا کہ اسے ذہانت اپنی والدہ سے ورثہ میں ملی ہے اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑاراز اس سے بے پناہ اور غیرفانی محبت ہے۔ وہ جب فوت ہوئی تو پندرہ برس تک اس کا نام اپنے لبوں پر لانے کی جرأت نہ ہوئی۔

اس نے سکاٹ لینڈ میں ایک عورت کا قرضہ محض اس لیے چکا دیا تھا کہ اس کی شکل اس کی والدہ سے ملتی تھی۔اینڈریو کارنیگی ’’لوہے کے بادشاہ کے نام سے مشہور تھا۔‘‘ اس کے باوجود وہ لوہے کی صنعت کے متعلق بہت کم واقفیت رکھتاتھا۔ اس کے تحت ہزاروں لوگ کام کرتے تھے اور وہ اس کی نسبت زیادہ علم اور تجربہ رکھتے تھے لیکن اسے آدمیوں سے کام لینا آتا تھا اور اس بات نے اسے امیر بنا دیاتھا۔

زندگی کے ابتدائی دورمیں ہی اس کے اندر لوگوں کی قیادت کرنے، انہیں منظم کرنے اور ان سے کام لینے کی جھلک موجود تھی۔جب وہ سکاٹ لینڈ میں رہتا تھا تو کہیں سے خرگوشوں کا ایک جوڑا پکڑ لایا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد گھر کے اندرخرگوش ہی خرگوش ہی دکھائی دینے لگے۔ ان سب کے لیے غذا مہیا کرنا ایک مسئلہ تھا۔ اسے ایک شاندار خیال سوجھا۔ اس نے محلے کے لڑکوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ اگر وہ کھانا وغیرہ لائیں گے تو وہ ان کے نام پرخرگوشوں کے نام رکھ دے گا۔

اس ترکیب نے جادو کی طرح کام کیا اور خرگوشوں کے لیے کھانے کی بھرمار ہو گئی۔ کئی برس بعد اینڈریو کارنیگی یہی نفسیات کاروبار میں بروئے کار لایا۔ مثلاً وہ پنسلووینیا ریلوے کمپنی کے پاس لوہے کی پٹڑیاں فروخت کرنا چاہتا تھا۔ اینڈریو کارنیگی نے پٹس میں لوہے کا ایک بڑا کارخانہ قائم کیا۔ اور اس کا نام ’’جے ایڈگر تھامسن سٹیل ورکس‘‘ رکھ دیا۔ پینسل وینیا ریلوے کمپنی کا مالک جے ایڈگرتھامسن خوش ہوگیا،

اور اسے اپنے نام پر قائم کارخانے کو لوہے کی پٹڑیاں تیار کرنے کا آرڈر دینے میں کسی قسم کااعتراض نہ تھا۔جب اینڈریو کارنیگی نو عمر تھا تو اسے روزی کمانے کی خاطر ایک تار گھرمیں بطور قاصد لڑکا کام کرناپڑا۔ اس کی تنخواہ دو شلنگ یومیہ تھا۔ اور اس کے لیے کافی تھی۔ وہ ان دنوں پٹس برگ میں نیا نیا آیا تھا اور دل میں ڈرتا تھا کہ اگر اس نے کسی دن کسی غلط گھر میں تار بھجوایا تو اسے نوکری سے جواب مل جائے۔

لہٰذا اس نے شہر کے تمام بڑے بڑے لوگوں کے نام اور پتے ازبر کر لیے۔ وہ آپریٹر بننا چاہتا تھا لہٰذا وہ رات کے وقت ٹیلی گرافی کا مطالعہ کرنے لگا اور ہر روز صبح سویرے دفتر کے لوگوں کے آنے سے پہلے ٹیلی گرافی کی مشق کرنے لگتا۔ایک صبح عملے کے آنے سے پہلے تاروں پر گرما گرم خبریں آ رہی تھیں۔ فلاڈلفیا پٹس برگ سے گفتگو کرنے کے لیے بے تاب تھا لیکن اس وقت ڈیوٹی پر کوئی آپریٹر نہ تھا۔

لہٰذا اینڈریو نے تمام پیغام خود نوٹ کیے اور پھر انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیا۔ جب افسر کومعلوم ہوا تو اس نے کارنیگی کی فوری ترقی کر دی۔ وہ آپریٹر بن گیا اور اس کی تنخواہ دوگنی ہوگئی لیکن اس کی سیماب صفت صلاحیتیں دوسروں کی نظروں کا مرکز بنی رہیں۔ جب پینسل وینیا ریلوے کمپنی نے ٹیلی گراف کا اپنا نظام قائم کیا تو اینڈریو کارنیگی وہاں آپریٹر کی حیثیت سے چلاگیاوہاں وہ بعد میں پرائیویٹ سیکرٹری اور پھر ترقی کرکے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ بن گیا۔

اچانک ایک دن ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ جس نے اس کی قسمت کو چار چاند لگا دیے۔ ایک دفعہ وہ ریل میں سفر کر رہا تھا کہ ایک موجد بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس موجد نے اسے ٹرین میں سونے کے لیے مخصوص طرز کے نئے ڈبے کا ڈیزائن دکھایا، اس سے پہلے سونے کے ڈبے بڑے بے ہنگم اور بے آرام ہوتے تھے۔ اینڈریو کارنیگی بڑا دور رس انسان تھا۔ اس نے یک دم بھانپ لیا کہ یہ ایجاد بڑی مقبول ہوگی۔ لہٰذا اس نے قرض لے کر ڈبے بنانے کا کارخانہ کھول دیا۔

اس سے اسے سنسنی خیز منافع ہوا۔ جب اینڈریو پچیس برس کا تھا تو اس اکیلے کی آمدنی ایک ہزار پونڈ تھی۔ایک دفعہ ریلوے لائن پر لکڑی کا بنا ہوا پل جل گیا۔ جس سے کئی روز تک ریلوں کی آمد و رفت بند رہی۔ ان دنوں اینڈریو کارنیگی ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ تھا۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ لکڑی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اس لوہے کا زمانہ ہے۔ لہٰذا اس نے روپے قرضے لے کر لوہے کے پل تعمیر کرنا شروع کر دیے اور اتنا نفع کمایا کہ اعداد و شمار سن کر عقل گم ہو جاتی ہے۔

جولاہے کا یہ بیٹا جس چیز کو ہاتھ لگاتا وہی سونا بن جاتی۔ قسمت اس کی یاوری کر رہی تھی۔ اس نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر مغربی پینسل وینیا میں تیل کے ذخیروں کے درمیان آٹھ ہزار پونڈ میں ایک فارم خریدا اور ایک برس بعد اسے دو لاکھ پونڈ میں فروخت کر دیا۔ ستائیس برس کی عمر میں اس کی ہفتہ وار آمدنی دو سو پونڈ ہوگئی۔ فقط پندرہ برس پہلے وہ دس پنس یومیہ پر کام کرتاتھا۔وہ 1862ء کا سال تھا۔ ابراہام لنکن امریکہ کا صدر تھا۔ خانہ جنگی زوروں پر تھی۔

اشیاء کی قیمتیں روز بروز بڑھ رہی تھیں۔ بڑی بڑی باتیں ظہور میں آ رہی تھیں۔ امریکہ کی سرحدیں وسیع ہو رہی تھیں۔ تھوڑے عرصے میں ریلوے لائن سارے امریکہ میں بچھ جانی تھی۔ شہر جنم لے رہے تھے۔ امریکہ ایک انقلابی اور حیرت ناک دور میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا تھا اور اینڈریو کارنیگی لوہے کی بدولت دن رات سونا پیدا کر رہاتھا۔ اس کی بھٹیاں لوہے کو کندن بنا رہی تھیں۔ جس قدر سرعت سے وہ امیر ہوا۔ انسانی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کسی شخص نے کبھی اتنی جلدی ترقی نہیں کی۔

اس کے باوجود اس نے کبھی محنت شاقہ نہیں کی تھی۔ وہ اپنا نصف وقت تفریح میں بسر کرتاتھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اس کے نائب اس سے زیادہ کام کو سمجھتے ہیں۔ وہ تو فقط انہیں کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگرچہ وہ سکاچ تھا مگر تنگ نظر اور بخیل نہیں تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کو اپنے کاروبار میں شریک کرتا تھا۔ اس کی بدولت بہت سے لوگ لکھ پتی بنے۔اس نے اپنی زندگی بھر فقط چار برس تعلیم حاصل کی۔ اس کے باوجود اس نے آٹھ کتابیں لکھیں۔

یہ کتابیں اقتصادیات، سوانح عمری، مضامین اور سفر ناموں پر مشتمل تھیں۔ اس نے پبلک لائبریریوں کو ایک کروڑ بیس لاکھ اور تعلیم کی ترقی کے لیے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ پونڈ دیے۔اسے روبی برنز کی تمام نظمیں ازبر تھیں اس طرح شکسپیئر کے ڈرامے ’’میکبھتھ‘‘ ’’ہملٹ‘‘ اور ’’کنگ لیر، رومیو جولیٹ‘‘ اور وینس کا سوداگر اسے زبانی یاد تھے۔ وہ جب چاہتا انہیں دہرا سکتاتھا۔وہ چرچ کا رکن نہ تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ساڑھے سات کروڑ پونڈ دوسروں کی امداد کے لیے دیے۔ یعنی ایک سال میں ہر روز بیس لاکھ پونڈ۔ اس نے اخبارات میں اعلان کرا رکھا تھا کہ جو شخص اسے اس کی دولت کا بہترین مصرف بتائے گا وہ اسے انعام دے گا، وہ کہا کرتاتھا کہ دولت مند ہونا ایک ذلت سے کم نہیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…