اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) امریکا میں حیاتیاتی ماہرین نے پالک کے پتوں میں دل کے پٹھے (ٹشوز) کامیابی سے اْگالیے ہیں جو خون پہنچانے والی باریک رگوں پر بھی مشتمل ہیں۔ورسیسٹر پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور دیگر امریکی جامعات کے ماہرین پر مشتمل ایک تحقیقی ٹیم نے ایسا ہی ایک طریقہ ایجاد کرلیا ہے جس میں پالک کے پتے استعمال
کرتے ہوئے دل کے زندہ ٹشوز تیار کرلیے گئے ہیں۔ یہ کامیابی مستقبل میں بہتر طبّی پیوند کاری اور متاثرہ شخص ہی کے صحت مند خلیات سے پوری جسمانی بافتیں اور اعضاء تیار کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اب تک بایو انجینئرنگ اور بایو پرنٹنگ میں استعمال ہونے والی تمام تدابیر کے ذریعے صرف انتہائی مختصر پٹھے ہی تیار کیے جاسکے ہیں لیکن طب کے شعبے میں عملاً قابلِ استعمال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں گہرائی تک خون پہنچانے والی انتہائی باریک باریک رگیں بھی ہوں جو شاخ در شاخ پھیلی ہوں۔پودوں کے پتوں کی طرح پالک کے پتوں میں بھی باریک باریک رگیں ہوتی ہیں جو پانی اور غذائی اجزاء کی پتوں میں آمد و رفت کو یقینی بناتی ہیں۔ البتہ پالک کے پتے بہت نرم اور نازک بھی ہوتے ہیں جب کہ ان میں نمی جذب کرنے کی صلاحیت بھی زبردست ہوتی ہے۔ان دونوں خصوصیات کے پیش نظر سائنسدانوں نے آزمائشی طور پر دل کی بافتیں اْگانے کے لیے
پالک کے پتوں کا انتخاب کیا۔ پہلے مرحلے میں پالک کے پتوں میں پانی داخل ہونے کے مرکزی مقام پر دل کی دھڑکن سے تعلق رکھنے والی بافتوں کے کچھ خلیات رکھ دیئے گئے اور پھر ان پتوں کو اس طرح لٹکایا گیا کہ انہیں (اپنی باریک رگوں کے راستے) پانی اور غذائی اجزاء مسلسل پہنچتے رہیں۔
پہلے ہی دن میں پالک کے پتوں کی شکل تبدیل ہونے لگی یہاں تک کہ ساتواں دن پورا ہونے پر یہ پتے مکمل طور پر غائب ہوچکے تھے اور ان کی جگہ مسلسل نشوونما پانے والے دل کے خلیات آچکے تھے۔ اس عمل میں خاص بات یہ رہی کہ اس طرح دل کے پٹھوں میں تبدیل ہونے والا پالک کا پتّہ بہت باریک
ضرور تھا لیکن پھر بھی اس کے اندر ویسی ہی باریک باریک رگوں کا جال بچھا ہوا تھا جیسا کہ اصل پتے میں موجود تھا۔آزمائشوں سے معلوم ہوا کہ یہ باریک رگیں ٹھیک اسی طرح کام کررہی ہیں جیسے قدرتی انسانی دل کی رگیں، مختلف پٹھوں تک خون پہنچانے کے لیے کرتی ہیں۔