سُلطان سنجر شکار کھیلتا ہوا دور نکل گیا۔ بھوک نے ستایا تو ایک کُٹیا میں داخل ہو گیا۔ فقیر نے بادشاہ کو پہچان لیا لیکن سُلطان سنجر اس غلط فہمی میں رہا کہ وہ پہچانا نہیں گیا، بادشاہ نے فقیر سے پوچھا۔ ” کیا کچھ کھانے کو مل سکتا ہے؟”فقیر نے انکسار سے جواب دیا۔ ” کیوں نہیں، ایک انڈا موجود ہے اور کچھ روٹی بھی مل جائے گی؟”بادشاہ نے بھوک سے بلبلا یا ہوا تھا۔ بولا۔ ” تب پھر جلدی حاضر کرو!”
فقیر نے انڈا تل کر روٹی کے ساتھ بادشاہ کے سامنے رکھ دیا۔ بادشاہ نے کھا چکنے کے بعد فقیر سے پوچھا۔ “تمھیں اس کھانے کی کیا قیمت ادا کر دی جائے؟”فقیر نے جواب دیا۔ ” سو دینار!”” سو دینار! ” بادشاہ نے تعجب سے پُوچھا ۔ ” کیا یہاں انڈے نہیں ملتے اور کھانے پینے کی چیزیں کمیاب ہیں؟”فقیر نے جواب دیا۔ “نہیں، ایسا نہیں ہے، یہاں انڈوں کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہی کھانے پینے کی چیزیں کمیاب ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ البتہ نایاب ہیں”بادشاہ نے اسے سو دینار ادا کر دیے اور کہا۔ “میں خوش ہوں کہ تم نے کھانے کی قیمت میرے شایانِ شان طلب کی!”