عقیدت مند سنگتراش نے عظیم فلسفی کا مجسمہ کئی ماہ کی شب و روز محنت سے تیار کیا۔ فلسفی کے چہرے پر ایک بڑا سامسّا تھا جو چہرے پر بہت ہی بُرا لگتا تھا ۔ سنگراش نے جوشِ عقیدت میں اس مسّے کو مجسمے کے چہرے سے نکال دیا تھا۔
مجسمے کی تیاری پردہ فلسفی کے پاس گیا اور ادب سے عرض کیا۔ ” جناب! وہ مجسمہ ملاحظہ فرما لیں۔ وہ میری اس محبت اور عقیدت کا شاہکار ہے جو مجھے آپ کی ذات سے ہمیشہ رہی ہے!”فلسفی نے اپنا مجسمہ دیکھا اور افسوس کرتے ہوئے کہا۔ ” تمھارا فن اپنی جگہ لیکن میں اس کی داد نہیں دے سکتا! “مجسمہ ساز نے غمگین ہو کے سوال کیا۔ “وہ کُیوں؟ اسے تو میں نے بڑی محنت سے تیار کیا ہے! “فلسفی نے جواب دیا۔ “مجسمے کے چہرے میں ایک بہت بڑا جھوٹ پایا جاتا ہے اور وہ جھوٹ یہ ہے کہ مجسمے کے چہرے پر میرے چہرے جیسا مسّا نہیں پایا جاتا۔”مجسمہ ساز نے کہا۔ “یہ مسّا چہرے کو بدنما کر دیتا۔ اس لیے اسے چھوڑ دیا گیا”فلسفی نے جواب دیا۔ ” مسّے کی بدنمائی جھوٹ کی بدنمائی سے بڑی نہیں ہو سکتی۔ میں نے زندگی بھر جس چیز سے نفرت کی ہے اسے تم رہتی دنیا تک میرے چہرے پر محفوظ کر دینا چاہتے ہو؟”