کراچی (نیوز ڈیسک)جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی جانب سے عدالت میں جمع کرائی جانے والی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بیس کروڑ روپے کی رقم بطور بھتہ ادا نہ کرنے پر بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری پر مسلح حملے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اب اس بات کو ایک مہینہ گزر جانے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملزم رضوان قریشی ’پْراسرار طور پر غائب‘ ہے۔منگل کو بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی کے واقعہ کی تحقیقات کی کارگردگی کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ ایک اجلاس کے دوران پاکستان رینجرز کی جانب سے اس پیش رفت کا ذکر کیا گیا۔اگرچہ اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے باضابطہ بیان میں اس بات کی زیادہ وضاحت نہیں کی گئی، جس کی صدارت رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بلال اکبر نیکی تھی، اس بیان میں تحقیقات کے نتائج کی مختصر تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے، جس سے نشاندہی ہوتی ہے کہ پولیس کے انوسٹی گیشن آفیسر اور آتشزدگی سے متاثرہ خاندانوں کو دھمکی دی گئی تھی۔اس دھمکی کے پسِ پردہ ایک ’بھتہ خور گروہ‘ کا ذکر اس بیان میں کیا گیا ہے، لیکن کسی گروہ یا فرد کا نام نہیں دیا گیاتھا۔اس بیان کا کہنا تھا کہ ’’اس اجلاس میں ایسے عناصر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا، جو بلدیہ ٹاؤن کے سانحے کی تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘مزید یہ کہ ’’اس اجلاس میں انوسٹی گیشن آفیسر اور اس سانحے کے متاثرین کو ایک بھتہ خور گروہ کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ان دھمکیوں کے پس پردہ کون لوگ اور تنظیم ہے، رینجرز انٹیلی جنس نے ان کا پتہ لگایا ہے۔‘‘اس بیان کا کہنا ہے کہ اس اجلاس میں ’’اہم ملزم رضوان قریشی کی پْراسرار گمشدگی اور اس کے محرک کا جائزہ لیا گیا۔‘‘
واضح رہے کہ اگرچہ اس جے آئی ٹی رپورٹ نے اس ملزم کی شناخت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا سرگرم رکن کے طور پر کی تھی، تاہم متحدہ نے اس کے ساتھ کسی بھی تعلق کو مسترد کردیا تھا۔رضوان قریشی ان چھ افراد میں سے ایک تھا، جن کے نام گزشتہ مہینے وزارتِ داخلہ کی جانب سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیے گئے تھے۔جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق دیگر لوگوں میں ایم کیو ایم کی کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی، اور عبدالرحمان عرف بھولا، جو اس سانحے کے موقع پر ایم کیو ایم کے بلدیہ ٹاؤن سیکٹر کے انچارج تھے، جن کا نام اس لسٹ میں شامل تھا۔بہت زیادہ شہرت حاصل کرنے والی اس جے آئی ٹی رپورٹ میں باقی ملزمان میں سے دو بلدیہ ٹاؤن میں ایم کیو ایم کے سابق سیکٹر انچارج اصغر بیگ اور ان کے بھائی ماجد بیگ تھے۔ تاہم چھٹے فرد سید جاوید شکیل کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا تھا۔رینجرز کے بیان کے مطابق رینجرز ڈی جی نے اس سانحہ میں ملوث تمام ملزمان اور ان کے ہمدردوں کی گرفتاری کی ہدایات جاری کیں۔اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ڈی جی رینجرز نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آپریشن میں تیزی لانے کے لیے بھی کہا۔‘‘ستمبر 2012ء4 کے یہ سانحہ جسے تقریباً فراموش کردیا گیاتھا، پچھلے مہینے دوبارہ اس وقت شہہ سرخیوں کی زینت بن گیا، جب رضوان قریشی جو ایک قتل کا ملزم بھی ہے، کے ریکارڈ بیان کو جے آئی ٹی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اس فیکٹری کو بیس کروڑ روپیکی عدم ادائیگی کے بعد نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔ اس سانحے میں فیکٹری کے 260 کارکن ہلاک ہوگئے تھے۔
ایسے وقت جب پولیس، رینجرز اور فیڈرل انویسٹی گیش ایجنسی کے افسران پر مشتمل نوتشکیل شدہ انوسٹی گیشن نے اپنا کام شروع کیا ہے، رینجرز کا بیان تازہ ترین حقائق کے ساتھ سامنے آیا ہے، جس کے بارے میں پولیس حکام سے جب بھی سوال کیا گیا تو انہوں نے ہر مرتبہ لاعلمی ظاہر کی تھی۔