اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے کہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات سے ایوان کو آگاہ کیا جائے، را ملوث ہے تو عالمی سطح پر ثبوت پیش کئے جائیں، پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سانحہ کوئٹہ اور مردان پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے جے یوآئی (ف ) کے سینیٹر حمد اللہ نے کہا کہ ہم نے سانحہ کو روکنے کے لئے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جو ضروری تھے، ہمیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ میں مانتا ہوں کہ ’’ را‘‘ بلوچستان میں مداخلت کر رہی ہے‘ حکومت کے موقف سے اتفاق کرتا ہوں۔ میں کابل اور افغان حکومت کو بھی جانتا ہوں‘ افغانستان کے راستے این ڈی ایس اور ’’ را‘‘ مداخلت کر رہی ہے‘ اگر مذہب کے نام پر دہشتگردی ہو تو اس کا سہولت کار مدرسے میں تلاش کیا جاتا ہے مگر ’’را‘‘ اور این ڈی ایس کا سہولت کار کون ہے، را پر ذمہ داری ڈال کر ہم بری الذمہ نہیں ہو سکتے،اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خودکش حملہ نہیں تھا، خودکش اس لئے کہا جاتا ہے کہ تفتیش رک جائے۔ نائن الیون سے پہلے مغربی بارڈر پر کسی سیکیورٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ جنرل مشرف نے ’’ را‘‘ اور این ڈی ایس کے لئے ماحول مہیا کیا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس اور مساجد سے کتنے ٹارگٹ کلر پکڑے گئے اور کتنے سیاسی دفاتر سے پکڑے گئے‘ مدارس سے کتنا اسلحہ پکڑا گیا یہ بھی اس ایوان میں بتایا جائے‘ جنہوں نے سو سے اوپر قتل کرنے کا اعتراف کیا وہ کہاں سے پکڑے گئے۔1947ء سے آج تک کسی مدرسے سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ نہیں لگایا گیا، پارلیمان نے کہا کہ خارجہ پالیسی پر نظرثانی کریں اس میں رکاوٹ کون ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے وکلاء کو اس پائے کا وکیل بننے میں 40 سال لگے۔ سینیٹر دائود خان اچکزئی نے کہا کہ کوئٹہ کے سانحہ سے قبل بھی کوئٹہ میں وکلاء پر دو حملے ہوئے‘ ایک وکیل اور ایک لاء کالج کے پرنسپل کو بھی قتل کیا گیا۔ سانحہ سے قبل جس وکیل رہنما کو قتل کیا گیا اسے ہسپتال کس نے پہنچایا‘ ابھی تک پتہ نہیں چلا، واقعہ کی تحقیقات سے اس ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ عوام کوتحفظ حاصل نہیں ہے ۔‘ کب تک ہم اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے‘ کوئٹہ کا سانحہ ہماری نسل کشی کے مترادف، ہمیں پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر اشوک کمار نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہم پہلے پاکستانی بعد میں بلوچی ہیں، حکومت ضیاء دور کی پالیسی کو ختم اور خارجہ پالیسی کو تبدیل کرے ورنہ ایسے سانحات ہوتے رہیں گے‘ ہمسایہ ملکوں سے اچھے تعلقات قائم کئے جائیں۔ اگر بھارتی خفیہ ایجنسی ملوث ہے تو عالمی سطح پر اس کے ثبوت فراہم کئے جائیں۔ وفاقی حکومت سانحہ کوئٹہ کے شہداء کے لواحقین کے لئے کچھ کرے۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ سانحہ میں 65 وکلاء کو شہید کیا گیا‘ ملک میں 35 ایجنسیاں ہیں‘ کوئٹہ میں ایف سی کے ہوتے ہوئے یہ واقعہ کیسے رونما ہوا‘ ہم کمزریوں کی نشاندہی کرتے ہیں‘ ہماری داخلہ و خارجہ پالیسیاں غلط ہیں، سانحہ کوئٹہ پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ سینیٹر گیان چند نے کہا کہ واقعات کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا جس مسائل پیدا ہوتے ہیں‘ نیشنل ایکشن پلان پر کہاں تک عمل ہوا ہے۔ سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ واقعہ کی ’’ را‘‘ یا طالبان پر ذمہ داری ڈال کر حکومت کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی، عملی اقدامات کئے جائیں‘ ہم اپنے اداروں سے توقع رکھتے ہیں کہ دہشت گردوں کو ختم کیا جائے‘ سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کو منظر عام پر لایا جائے‘ دہشتگردوں کا یہ آخری وار نہیں ہے، حکومت ہر سطح پر اقدامات کرے۔۔ سینیٹر گل بشریٰ نے کہا کہ دہشتگردی کے ناسور سے نجات دلائی جائے۔ سینیٹر جان کینتھ ویلیم نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مسیحیوں کی قربانیاں بھی شامل ہیں۔ بلوچستان کے عوام صبر کرنے والے ہیں۔ اقتصادی راہداری گیم چینجر ہے، ہمیں اس سے پہلے بلوچستان میں تبدیلی لانا ہوگی۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے کہا کہ 27 سے زائد زخمی طبی امداد نہ ملنے سے جاں بحق ہوئے۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے جو سوال اٹھائے ہیں ان کی تائید کرتا ہوں۔