بیجنگ (آن لائن) گزشتہ روز ہیگ کی عالمی عدالت نے بحیرہ جنوبی چین پر خودمختاری کے متعلق دائر کیے گئے فلپائنی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے چین کے بحیرہ جنوبی چین پر علاقائی خودمختاری کے متعدد دعوؤں کو رد کر دیا۔ چینی وقت کے مطابق جب شام پانچ بجے عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بحیرہ جنوبی چین پر چین کے متعدد د عوؤں کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے تو چینی عوام غصے سے آگ بگولا ہو گئے اور سوشل میڈیا پر لاکھوں چینی شہری اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی حکومت پر امریکا اور فلپائن کے خلاف جنگ شروع کرنے کیلئے زور ڈالنے لگے۔فلپائن کی جانب سے 2013 ء4 میں دائر کیے گئے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ چین نے سپریٹلی جزائر کے گرد فلپائنی کشتیوں کو مچھلیاں پکڑنے سے غیر قانونی طور پر روک رکھا تھا جبکہ متعدد چھوٹے جزائر کی ملکیت کے متعلق بھی چینی دعوؤں کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ چینی سوشل میڈیا پر ہیگ کی عالمی عدالت کو علان جنگ کے مترادف قرار دیا گیا۔ آن لائن شائع ہونیوالے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ’’آج کی رات بحیرہ جنوبی چین میں جنگ کا آغاز ہے۔ ‘‘ موبائل میسجنگ پلیٹ فارم وی چیٹ پر اس آرٹیکل کو ایک لاکھ سے زائد مرتبہ پڑھا جا چکا ہے۔ غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جہاں ایک طرف چینی عوام سخت مشتعل ہیں اور جنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں حکومت کی جانب سے اس نوعیت کے تبصروں اور بیانات پر قابو پانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ چینی سوشل میڈیا ویب سائٹ وائبو پر پوسٹ کی جانیوالے اکثر بیانات میں امریکہ اور فلپائن کے خلاف جنگ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک اور صارف نے لکھا ’’بحیرہ جنوبی چین میں جنگ ناگزیر ہو چکی ہے۔‘‘کارنل یونیورسٹی کے پروفیسر آف گورنمنٹ جیسیکاشین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت عوامی رائے کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ بے قابو رائے عامہ حکمران کمیونسٹ پارٹی کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکمران پارٹی بحیرہ جنوبی چین پر خودمختاری قائم رکھنے میں ناکام ہوتی ہے یا عوامی مطالبے کے مطابق جارہانہ رویہ اختیار نہیں کرتی تو اسے اس کی کمزور سمجھا جائے گا، لہٰذا اس صورتحال کا نتیجہ یہ ہو گا کہ چینی حکومت پر کوئی سخت قدم اٹھانے کے لئے دباؤ مزید بڑھتا جائے گا۔۔