برلن(مانیٹرنگ ڈیسک)جرمنی کی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں بندسٹیگ نے ریپ سے متعلق ایک قانون کو منظور کرلیا ہے جو ملک میں ریپ کی تعریف کو بدل دے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق جرمنی میں رائج قانون کرمنل کوڈ کی سیکشن 177 کے تحت اگر کوئی خاتون یہ الزام عائد کرے کہ اسے ریپ کیاگیا ہے تو اسے ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے جنسی زیادتی کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ موجودہ قانون کی نظر میں صرف ’زبانی انکار‘ پر ملزم کو سزا نہیں سنائی جا سکتی۔قانون میں اس سقم کی وجہ جنسی زیادتی کے اکثر ملزمان بچ جاتے ہیں۔ سنہ 2014 میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق قانون خاتون کے’زبانی انکار‘ کو تسلیم نہیں کرتا۔جرمن قانون میں اب یہ تبدیلی کی گئی ہے ریپ کے الزام کی صحت کا اندازہ لگانے کے لیے حکام اب ’مزاحمت‘ اور ’زبانی انکار‘ دونوں کو خاطر میں لائیں گے جس کا مطلب ہے کہ قانون اب ’زبانی انکار‘ کو گواہی کے طور پر تسلیم کرے گا۔حقوق کی مہم چلانے والوں کا کہنا تھا کہ جرمنی ریپ کے قوانین کے حوالے سے ہمیشہ پس ماندہ رہا ہے۔ جرمنی میں ’ازدواجی ریپ‘ کا قانون سنہ 1997 میں متعارف کرایا گیا تھا۔گذشتہ برس کولون میں سال نو کی تقریبات میں سینکڑوں عورتوں نے شکایت کی تھی کہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا جس نے جرمن معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ لوگوں کو یہ یہ جان کر بھی غصہ آیا کہ ریپ کے موجودہ قانون میں ’مزاحمت‘ کی شرط ہونے کی وجہ سے پولیس اکثر ملزمان کو سزا نہیں دلوا پائی اور صرف چند ملزمان ہی قانون کی گرفت میں آ سکے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ قانون کسی ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے جس کے تحت اگر متاثرہ فرد ’زبانی انکار‘ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو ایسے صورتحال سے نمٹنے کیلئے قانون اب بھی سقم موجود ہے۔جرمنی میں جنسی طور پر ہراساں کرنے اور گروہ کے حملوں کے خلاف بھی قوانین کو مضبوط کیا جا رہا ہے۔