پیر‬‮ ، 15 دسمبر‬‮ 2025 

سعودی عرب کانائن الیون حملوں سے کیا تعلق تھا؟بالاخر سی آئی اے نے بڑا اعلان کرہی دیا

datetime 12  جون‬‮  2016 |

واشنگٹن (این این آئی)امریکا کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے چیف جان برینن نے کہا ہے کہ نائن الیون کے واقعات سے سعودی عرب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان تناؤ اور کشیدگی کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ دونوں دوست ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات خوش گوار سطح پر قائم ہیں۔جان برینن نے ان خیالات کا اظہار عرب ٹی وی کو دئے گئے ایک انٹرویومیں کیا، انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ امریکا سعودی عرب کی دہشت گردی کے خلاف مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین تعلقات اور دو طرفہ تعاون قائم ہے۔سی آئی اے چیف نے کہا کہ سعوی عرب اور امریکا کے درمیان بہترین تعلقات قائم رہے ہیں۔ ہم نے ریاض کے ساتھ مل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں طویل سفر طے کیا ہے۔ میں خود پانچ سال تک سعودی عرب میں رہا اور وزیر داخلہ ولی عہد شہزادہ محمد بن نایف کے ساتھ کام کیا۔ گذشتہ پندرہ سال دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے کلیدی کردار کا عرصہ ہے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے مضبوط اور حقیقی اتحادی اب بھی موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2002ء میں نائن الیون کے واقعات کے حوالے سے تیار کردہ ایک رپورٹ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت بھی اس میں ملوث رہی ہے پر نظر ثانی کی گئی اور تفتیش کاروں نے رپورٹ کی تیاری میں کی گئی غلطیوں کا ازالہ کیا ہے۔ ہم نے ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں بتایاہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون کے حملوں میں کوئی کردار نہیں ہے۔ سعودی عرب بہ طور ریاست، کوئی ادارہ یا کوئی سرکاری عہدیدار ان حملوں میں بالواسطہ یا براہ راست ہر گز ملوث نہیں ہیں۔ اٹھائیس صحفات پر محیط یہ رپورٹ جلد ہی سامنے لائی جائے گی۔ ہم اس رپورٹ کے منظر عام پر لانے کے حامی ہیں کیونکہ اس میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ سعودی عرب کا نائن الیون کے واقعات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔عرب ممالک میں ایران کی کھلی مداخلت سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سی آئی اے چیف کا کہنا تھا کہ انہیں عراق، شام اور دوسرے عرب ملکوں میں ایران کی فوجی مداخلت پر گہری تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران عرب خطے میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑائی چھیڑنے کے لیے اپنے حامیوں کی مدد کر رہا ہے۔ ہم ایرانی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے تہران سے عرب ممالک میں دخل اندازی بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔امریکا اور ایران کے درمیان دو طرفہ روابط کے بارے میں جون برینن کا کہنا تھاکہ واشنگٹن کے تہران کے ساتھ کسی قسم کے کوئی روابط قائم نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا ایران کی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت بالخصوص شام اور عراق میں شدت پسندوں کی معاونت پر تشویش کا اظہار کر چکا ہے

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



اسے بھی اٹھا لیں


یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…