اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) پاکستان میں ایک سال کے دوران کم عمر بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں سات فیصد اضافہ ہوا ہے پنجاب میں 2015 ء میں جنسی تشدد و زیادتی کے واقعات پنجاب 2616، سندھ 638، بلوچستان 207، اسلام آباد 167، خیبر پختونخواہ 113، گلگت بلتستان اور فاٹا سے 3، 3 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسلام آباد سے اس سال تشدد کے واقعات میں 85 فیصد تک اضافہ ہوا ہے وفاقی دارلحکومت نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں پورے صوبہ خیبر پختونخوا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ منگل کو غیر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے جاری کردہ سالانہ رپورٹ ظالم اعداد 2015 ء کی تقریب رونمائی اسلام آباد کے ہوٹل میں منعقد ہوئی اس موقع پر ساحل کے حکام نے بتایا کہ پاکستان میں سال 2015ء کے دوران بچوں پر جنسی تشدد کے کل 3768 واقعات رپورٹ ہوئے اس اعداد و شمار کے حساب سے روزانہ اوسطاً 10 بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ساحل کی سالانہ رپورٹ ’’ظالم اعداد 2015‘‘ کی تقریب رونمائی اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی۔ یہ پاکستان میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں پر جنسی تشدد کے اعداد و شمار کے حوالے سے واحد رپورٹ ہے اس رپورٹ کے مطابق سال 2014 ء کی نسبت گزشتہ سال ان واقعات میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سال 2015 میں بھی 11سے15 سال کے بچے زیادہ جنسی تشدد کا شکار ہوئے لڑکیوں پر تشدد کی شرح لڑکوں کی نسبت زیادہ رہی اعدادوشمار کے مطابق 1974 لڑکیاں اور 1794 لڑکے جنسی تشدد کا شکار بنے۔یہ اعداد و شمار 84 قومی، علاقائی اور مقامی اخبارات سے اخذ کئے گئے جن میں سے 7 براہ راست ساحل کو رپورٹ ہوئے۔سال 2015 میں 5483 افراد 3768 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے۔ زیادتی کے واقعات پنجاب 2616، سندھ 638، بلوچستان 207، اسلام آباد 167، خیبر پختونخواہ 113، گلگت بلتستان اور فاٹا سے 3، 3 واقعات رپورٹ ہوئے۔تاہم اسلام آباد سے اس سال تشدد کے واقعات میں 85 فیصد تک اضافہ ہوا ہے وفاقی دارلحکومت نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں پورے صوبہ خیبر پختونخوا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک امر ہے۔ کل 3768 واقعات میں سے 1386 اغواء، 541 لڑکیوں سے زیادتی، 456 لڑکوں سے بدفعلی، 492 اجتمائی بدفعلی، 234 اجتمائی زیادتی اور 112 واقعات کم عمری میں شادیوں کے سامنے آئے۔بچوں سے جنسی تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد (1943) ان افراد کی ہے جو بچوں سے واقفیت رکھتے تھے، 829 اجنبی، 72 رشتہ دار، 55 اساتذہ، 54 پڑوسی، مولوی، پولیس اور دیگر بھی بچوں سے جنسی تشدد میں ملوث پائے گئے۔سال 2015 میں رپورٹ ہونے والے واقعات میں دیہی علاقوں سے 74 فیصد جبکہ شہری علاقوں سے 26 فیصد واقعات سامنے آئے۔ساحل کے اعدادوشمار کے مطابق 2015 کے دوران 2571 واقعات پولیس کے پاس درج ہوئے 323 واقعات کو پولیس نے درج کرنے سے انکار کیا،165 پولیس کے پاس درج نہ ہو سکے جبکہ 709 واقعات کے اندراج کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 5 سال تک کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔سال 2015 کی اس رپورٹ کے مطابق چھ سے دس، گیارہ سے پندرہ اور پانچ سال سے کم عمر کے لڑکے، لڑکیوں کی نسبت زیادہ جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔ ساحل کے گزشتہ کئی سالوں کے اعداد و شمار میں یہ پہلا موقع ہے کہ پیدائش سے پندرہ سال تک کے لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ تشددکا شکار ہوئے ہیں۔ بچوں کے ساتھ رونما ہونے والے تشدد کے واقعات 44 فیصد بند جگہوں پر پیش آئے، جن کی شرح کھلی جگہوں کی نسبت زیادہ ہیں۔1661 واقعات ایسی جگہوں پر پیش آئے جن میں بچوں کے اپنے گھر اور جان پہچان والوں کے گھروں اور اس کے علاوہ بچوں کے اپنے سکولوں، مدرسوں، ہسپتالوں اور مارکیٹوں میں بھی تشددکا نشانہ بنایا گیا۔ سال 2015 ء میں رپورٹ ہونے والے کل 3768 واقعات میں سے 2239 واقعات بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تھے۔اس سال میں بچوں کے اغواء کے کل 1386 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 57 فیصد واقعات لڑکیوں اور 43 فیصد لڑکوں کے ساتھ رونما ہوئے۔سال 2014 میں اغوا کے واقعات 1831 سے کم ہو کر 2015 میں 1386 ہو گئے۔ اغوا کے سب سے زیادہ واقعات راولپنڈی 181، اسلام آباد 137 اور کوئٹہ میں 127 پیش آئے۔سال 2015 میں کم عمری کی شادی کے کل 112 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 103لڑکیاں اور9 لڑکے شامل ہیں۔گزشتہ سال کم عمری میں شادیوں کے 112 واقعات سامنے آئے جن میں 57 واقعات صوبہ سندھ،42 پنجاب، 7خیبر پختونخواہ، 5 بلوچستان، جبکہ 1 واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا۔ سال 2015 میں کم عمری کی شادیوں کے واقعات میں سے 47 فیصد واقعات پولیس کے پاس درج ہوئے، 45 فیصد واقعات کی تفصیلات اخبارات میں موجود نہیں تھیں، 6 فیصد واقعات پولیس کے پاس درج نہیں ہو سکے جبکہ 2 فیصد واقعات ایسے ہیں جنھیں پولیس نے درج کرنے سے انکارکیا۔