ہمارے ساتھ سخت‘ سرد اور اجنبی رویئے کے باوجود تہران ایک خوبصورت اور قابل تعریف شہر ہے‘ یہ شہر صفائی‘ ڈسپلن‘ سلیقے اور خوبصورتی کی وجہ سے کسی بھی طرح یورپ کے بڑے شہروں سے پیچھے نہیں‘ آپ لینڈ کرتے جہاز سے شہر کو دیکھیں تو آپ کو تاحد نظر فلیٹس کے سینکڑوں کمپلیکس نظر آتے ہیں‘ یہ فلیٹس حکومت کی منصوبہ بندی‘ شہریوں کی خوش حالی اور سولائزیشن کی علامت ہیں‘ آپ دنیا کے امیر اور خوش حال شہروں کی فہرست بنائیں تو آپ کو ان شہروں میں آٹھ مشترک چیزیں نظر آئیں گی‘ ان آٹھ مشترک چیزوں میں ایک چیز فلیٹس بھی ہیں‘ دنیا میں جب بھی کوئی شہر ترقی کرتا ہے تو یہ زمین سے آسمان کی طرف اٹھنے لگتا ہے‘ لوگ گھروں کی بجائے فلیٹس میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ غیر ترقی یافتہ ملکوں اور شہروں کے لوگ خود کو مکانوں میں زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں‘ تہران فلیٹس کا شہر ہے‘ پورے شہر میں فلیٹس کے کمپلیکس بکھرے ہیں‘ شہر میں مردوں کے مقابلے میں خواتین بھی زیادہ نظر آتی ہیں‘ آپ کو گلیوں‘ بازاروں‘ بس سٹاپوں‘ ریستورانوں اور میٹرو سٹیشنز ہر جگہ خواتین دکھائی دیتی ہیں‘ خواتین کے سر پر سکارف اور بدن پر عبایا ہوتا ہے لیکن یہ پورے اطمینان سے سڑکوں اور گلیوں میں گھومتی نظر آتی ہیں‘ خواتین کی یہ بے خوفی ثابت کرتی ہے‘ ایرانی معاشرہ محفوظ بھی ہے اور پرامن بھی۔ مجھے چند گھنٹوں کے قیام میں ایک ریستوران اور ایک کافی شاپ میں جانے کا اتفاق ہوا‘ دونوں میں ویٹریس کام کر رہی تھیں اور ان کے چہروں پر اطمینان اور اعتماد تھا‘ مجھے ایرانی مردوں کی آنکھ میں حیا بھی نظر آئی‘ کوئی مرد کسی خاتون کی طرف دیکھتا یا اسے گھورتا نظر نہیں آیا‘ یہ ایرانی معاشرے کی شائستگی اور تہذیب کی دلیل ہے‘ ایرانی خواتین گھروں میں بیٹھنے کی بجائے کام کرتی ہیں‘ یہ بزنس بھی کرتی ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتیں بھی۔ حکومت بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے‘ ایران میں نوجوانوں میں شرح خواندگی 97 فیصدہے لیکن ساری تعلیم فارسی میں ہے‘ میڈیکل اور انجینئرنگ بھی فارسی میں پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے‘ لوگوں کو انگریزی نہیں آتی تاہم مجھے لوگوں میں انگریزی کا ”کمپلیکس“ نظر آیا‘ یہ انگریزی بولنے والے کو بڑی حسرت سے دیکھتے تھے‘ شہر کے تمام سائین بورڈز فارسی میں تھے‘ ایرانی کھانا اچھا‘ ذائقے دار اور صحت بخش تھا‘ یہ کھانے میں مرچ اور مصالحے استعمال نہیں کرتے‘ گوشت اور سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں‘ سالاد اور سوپ کے بھی دل دادہ ہیں‘ ملک میں فروٹ بہتات میں ملتے ہیں‘ کھانا سستا بھی ہے اور وافر بھی۔ تہران کی صفائی بھی لاجواب ہے‘ آپ کو شہر میں کسی جگہ کاغذ‘ ریپر یا کچرا نظر نہیں آتا‘ یہ لوگ بھی یورپ کے بڑے شہروں کی طرح رات کے وقت سڑکیں اور گلیاں دھوتے ہیں‘ مجھے سفارت خانے کے لوگوں نے بتایا ”آپ کو صفائی کا یہ معیار پورے ملک میں ملے گا‘آپ کسی گاﺅں میں چلے جائیں یا کسی دور دراز قصبے میں آپ کو وہاں کی گلیاں اور سڑکیں بھی اسی طرح صاف ستھری ملیں گی“ ان کا کہنا تھا ”لوگ بھی صفائی کا خاص خیال رکھتے ہیں اور حکومت بھی“ پورے ملک میں انفراسٹرکچر بھی بچھا ہے‘ ملک کا شاید ہی کوئی گاﺅں ہو گا جس میں سڑک‘ سکول اور ہسپتال نہ ہو‘ ٹرانسپورٹ کا نظام بھی بہت اچھا ہے‘ تہران شہر میں زیر زمین ٹرین سروس بھی ہے اور لاہور جیسی میٹرو بھی۔ تہران کی میٹرو بس لاہور کی میٹرو بس کی طرح جنگلے میں چلتی ہے اور اس کا کرایہ بھی ”افورڈ ایبل“ ہے‘ ٹریفک البتہ زیادہ اور مشکل ہے‘ گاڑیاں سستی ہونے کی وجہ سے زیادہ ہیں چنانچہ تہران میں ”ٹریفک جام“ معمول کی بات ہے‘ حکومت نے اس کے مختلف حل نکالے‘ حکومت ایک دن طاق نمبر کی گاڑیاں سڑکوں پر آنے دیتی ہے اور دوسرے دن جفت نمبر کی گاڑیاں۔ سڑکیں بھی کھلی کی جا رہی ہیں مگر اس کے باوجود مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے۔
حکومت زندگی کے ہر معاملے میں ایکٹو نظر آتی ہے‘ دفتروں میں ملازمین وقت پر آتے ہیں اور وقت پر گھر جاتے ہیں‘ دفتر کے وقت ڈیوٹی سے غائب ہونے کا رجحان نہیں‘ حکومت شہری معاملات میں بھی بہت متحرک ہے‘ سڑک ٹوٹ جائے‘ فٹ پاتھ کی اینٹ نکل جائے یا پھر بجلی کا کوئی کھمبا کھسک جائے‘ میونسپل کمیٹی کا عملہ فوراً وہاں پہنچ جاتا ہے اور وہ مرمت اسی دن مکمل ہو جاتی ہے‘ سرکاری دفتروں میں جاسوسی کا نظام بھی سخت ہے‘ ملک کے تمام دفتروں میں خفیہ اداروں کے لوگ بھی ہیں اور مذہبی رہنما بھی۔ یہ دونوں سرکاری ملازمین پر نظر رکھتے ہیں‘ یہ کارکردگی کی رپورٹ بھی روزانہ مرکزی دفتر بھجواتے ہیں‘ ایران کا کوئی سرکاری ملازم کسی غیر ملکی سے اکیلا نہیں ملتا‘ یہ ملاقات سے قبل کسی دوسرے ملازم کا بندوبست کرے گا اور پھر میٹنگ ہو گی‘ دفتری نظام سخت ہے‘ خفیہ اداروں اور فوج کے پاس زیادہ اختیارات ہیں‘ ایک باڈی کے اوپر دوسری باڈی ہے اور دوسری کے اوپر تیسری اور ہر بالائی باڈی زیریں سے زیادہ مضبوط‘ زیادہ تگڑی ہے‘ لاءاینڈ آرڈر بہت مضبوط ہے‘ ملاوٹ اور منشیات فروشی کی سزا موت ہے چنانچہ آپ کو پورے ملک میں اشیاءبھی خالص ملیں گی اور آپ کو ہیروئن کے مریض بھی نظر نہیں آتے‘ یہ شادی کے معاملے میں ”ری لیکس“ لوگ ہیں‘ یہ عارضی شادی کوصیغہ کہتے ہیں اور اسے قانونی حیثیت حاصل ہے‘ ملک میں نکاح نامے چیک کرنے کی کوئی روایت نہیں‘ اگر عورت اور مرد خوش ہیں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا تاہم یہ زیادتی اور جبر کو برداشت نہیں کرتے‘ یہ زیادتی کے مجرموں کو سرے عام پھانسی دے دیتے ہیں‘ جاسوسی کا نظام پورے ملک میں پھیلا ہے‘ کوئی شہری کسی اجنبی یا غیرملکی کو گھر نہیں ٹھہرا سکتا‘ غیر ملکی ہر حال میں ہوٹل میں ٹھہرے گا اور حکومت اس کی نقل و حرکت سے پوری طرح واقف ہو گی‘ یورپ ایرانی نوجوانوں کو دھڑا دھڑ ویزے اور وظائف دیتا ہے‘ حکومت بھی انہیں اعلیٰ تعلیم کےلئے باہر بھجواتی رہتی ہے‘ یہ لوگ اجنبیوں سے ملاقات میں ”کمفرٹیبل“ نہیں ہوتے‘ دوسروں کو مشکوک نظروں سے دیکھنا اور ان کے ساتھ کھل کر بات چیت نہ کرنا ایرانیوں کی عادت ہے‘ یہ ہر سوال غور سے سنتے ہیں اور پھر سفارت کاروں کی طرح اس کا جچا تلا جواب دیتے ہیں‘ معاشرہ چار دیواری کے اندر کھل رہا ہے‘ لوگ سڑکوں پر ہلہ گلہ نہیں کرتے لیکن چار دیواری کے اندر پارٹی کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے‘ میڈیا ”ٹائیٹ“ ہے‘ یہ ہماری طرح ہر قسم کی خبر نہیں دے سکتا‘ حکومت سوشل میڈیا پر بھی ”چیک“ رکھتی ہے‘ یہ لوگ سخت قوم پرست بھی ہیں‘ یہ ایرانی پہلے ہیں اور مسلمان‘ عیسائی اور یہودی بعد میں۔ آپ ان کے عقائد پر اعتراض کر سکتے ہیں‘ آپ ان سے مذہبی بحث بھی کر سکتے ہیں‘ یہ اطمینان سے آپ کی گفتگو بھی سنیں گے اور آپ کا اختلاف بھی برداشت کریں گے لیکن اگر آپ ایران یا ایرانی تہذیب پر تنقید کریں گے تو یہ ایک لفظ برداشت نہیں کریںگے‘ شاید یہی وجہ ہے پوری اسلامی دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ یہودی ایران میں مقیم ہیں اوراسرائیل کے ساتھ خوفناک لڑائی کے باوجود یہ تمام یہودی ایران میں محفوظ ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ایرانی انہیں یہودی سے زیادہ ایرانی سمجھتے ہیں اور سوچ کے اس فرق نے یہودیوں کو ایران میں محفوظ کر دیا‘ یہ کھلے عام پھرتے ہیں اور کوئی ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھتا‘ تہران میں دس لاکھ کے قریب سنی العقیدہ لوگ بھی بستے ہیں‘ یہ لوگ بھی یہاں محفوظ ہیں‘ ان پر حملے نہیں ہوتے تاہم یہ لوگ اس تحفظ کے باوجود یہاں اپنی مسجد نہیں بنا سکتے چنانچہ تہران شہر میں اہل سنت کی کوئی مسجد نہیں‘ یہ فرقہ وارانہ پابندی ختم ہونی چاہیے‘ ایران کے علماءکو اہل سنت کو مساجدبنانے کی اجازت دینی چاہیے اور اسی طرح سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات میں امام بارگاہیں بننی چاہئیں‘ یہ زیادتی ہے کیونکہ مسلمان یورپ اور امریکا میں جہاں چاہتے ہیں مساجد اور امام بارگاہیں بنا لیتے ہیں لیکن یہ سہولت سعودی عرب اور ایران میں موجود نہیں‘ ان دونوں ملکوں میں اسلام تقسیم ہے۔
ایران کے عام لوگ آج بھی احمدی نژاد کو پسند کرتے ہیں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ احمد نژاد نے ملک کے تمام لوگوں کو گھر دار بنا دیا تھا‘ انہوں نے اعلان کیا ”عوام کو گھر دینا ریاست کی ذمہ داری ہے“ چنانچہ ان کے دور میں ملک کے تمام بے گھر لوگ فلیٹس کے مالک بن گئے‘ یہ گھر قسطوں پر ہیں‘ قسطیں بہت چھوٹی ہیں اور یہ بیس سے تیس سال میں مکمل ہوں گی‘ عام لوگ گھر ملنے پر خوش ہیں‘ دوسرا احمدی نژاد نے تمام لوگوں کو مہنگائی الاﺅنس دے دیا‘ ایران کا کوئی بھی شخص اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا‘ یہ سکیم عوامی سطح پر شاندار لیکن ملکی لیول پر خوفناک ثابت ہوئی‘ ایران کے نوے فیصد عوام نے اس کا جی بھر کرفائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ملکی معیشت کا جنازہ نکل گیا‘ ملک میں مہنگائی اوربے روزگاری میں اضافہ ہوا اور اس کا نقصان ہر طبقے کو اٹھانا پڑا‘ یہ معاشی تباہی احمدی نژاد کے سیاسی زوال کی وجہ بن گئی اوریوں یہ اور ان کی پارٹی جون2013ءکا صدارتی الیکشن ہار گئی‘ ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی ملک میں تیزی سے پاپولر ہو رہے ہیں‘ ان کی شہرت کی وجوہات میں اکانومی‘ خطے میں امن کےلئے کوششیں اور ایران کو عالمی اقتصادی پابندیوں سے باہر لانے جیسے اقدامات شامل ہیں‘ ایران سے 37سال پرانی پابندیاں اٹھ چکی ہیں‘ ایران کو بینکوں میں پڑے ایک ارب 70 کروڑ ڈالر بھی مل گئے ہیں اور ان کے سو ارب ڈالر کے اثاثے بھی ریلیز ہو رہے ہیں‘ یہ صدر حسن روحانی کی بہت بڑی کامیابی ہے‘ ایران کے لوگ اس کامیابی پر بہت خوش ہیں‘ حسن روحانی نے پاکستان کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا ہے اور یہ پاکستان کے ذریعے سعودی عرب سے بھی اپنے اختلافات کم کرنا چاہتے ہیں‘ میاں نواز شریف ہدف کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘ میاں نواز شریف کے دورے کے دوسرے دن آیت اللہ خامنہ ای نے سعودی عرب کا سفارت خانہ جلانے کے واقعے کو قابل افسوس قرار دے دیا‘ یہ بیان پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے‘ صدر حسن روحانی اب اگر سعودی عرب کے ساتھ بھی معاملات ٹھیک کر لیتے ہیں تو یہ ایران کی جدید ترین تاریخ کے رستم ثابت ہوں گے جس کا فائدہ ان کی ذات کو بھی ہوگا‘ ایران کو بھی اور پورے عالم اسلام کو بھی۔
مجھے تہران میں چند گھنٹے گزارنے کا موقع ملا لیکن میں شاید پوری زندگی ان چند گھنٹوں کے اثر سے نہ نکل سکوں‘ کیوں؟ کیونکہ تہران پہلی محبت کی اس پہلی نظر کی طرح ہے جس کا اثر مرنے کے بعد بھی قائم رہتا ہے اور محبوب‘ محبوبہ اور محبت یہ تینوں اگر مر بھی جائیں تو بھی نظر کا یہ اثر نہیں مرتا‘ یہ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
تہران‘ پہلی محبت کی پہلی نظر
22
جنوری 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں