اسلام آباد (نیوزڈیسک+سپیشل رپورٹ)جڑواں شہروں میں سوائن فلو سے ہلاکتوں کی تعداد تین تک جا پہنچی ¾ مزید تیرہ مریضوں میں تشخیص ہوگئی تفصیلات کے مطابق پمز اسپتال میں سوائن فلو کے مریضوں کیلئے دو بیڈز پر مشتمل آئسو لیشن وارڈ قائم کر دیا گیا ¾پولی کلینک اسپتال میں سوائن فلو کے حوالے سے کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔ ادھر ترجمان پمز ہسپتال کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں سوائن فلو سے متاثرہ کوئی مریض نہیں لایا گیا تاہم اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں سوائن فلو کے شبہ میں مریض لایا گیا۔ مریض کے نمونے تشخیص کے لیے قومی ادارہ صحت بھجوا دیئے گئے ہیں ¾ ذرائع کے مطابق قومی ادارہ صحت میں پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی ، لاہور اور ملتان سے سوائن فلو کی تشخیص کے زیادہ نمونے لائے گئے ہیں ۔ قومی ادارہ صحت کے ذرائع نے بتایا کہ سوائن فلو سے متاثرہ افراد میں اضافے کا خدشہ ہے۔میکسیکو سے شروع ہونے والی ”سوائن فلو“ کی بیماری اب دنیا کے دوسرے خطّوں میں بسنے والے انسانوں کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ یہ وائرس سو¿ر سے براہِ راست انسان میں (لیکن انسان سے سو¿ر کو بھی) منتقل ہو سکتا ہے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ ”سوائن فلو“ آخر ہے کیا؟ یہ بیماری کہاں سے آتی ہے اور کیسے پھیلتی ہے؟ ”سوائن فلو“ بظاہر تو سانس کی نالی کی عام بیماریوں ہی کی طرح کی بیماری ہے۔ جیسے انسان انفلوئنزا میں مبتلا ہوتے ہیں، ویسے ہی دوسرے جاندار ، مثلاً سو¿ر بھی ہوتے ہیں یعنی ایک سے دوسرے میں وائرس کی منتقلی کی شرح کہیں زیادہ ہوتی ہے لیکن اِس سے موت واقع ہو جانے کے واقعات زیادہ نہیں ہوتے۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے، جو موجودہ وائرس کو اتنا خطرناک بناتی ہے؟ جیسا کہ فلو کے کسی بھی اور وائرس میں دیکھنے میں آتا ہے، ”سوائن فلو“کی ساخت بھی مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ اگر کسی سو¿ر میں ایک ساتھ ”سوائن فلو، ”برڈ فلو“ اور انسانوں کے وائرس بھی ہوں، تو ا±س کے جسم میں جینز ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔ اِس عمل میں وائرس کی ایک ایسی نئی قسم وجود میں آ سکتی ہے، جس میں جانور اور انسان کے وائرس، دونوں کی خصوصیات موجود ہوں۔”سوائن فلو“ بڑی تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ یہ وائرس سو¿ر سے براہِ راست انسان میں (لیکن انسان سے سو¿ر کو بھی) منتقل ہو سکتا ہے۔ اب تک اِس طرح کی انفیکشن کے واقعات زیادہ تر سو¿روں کے ساتھ انسانوں کے براہِ راست رابطے کے نتیجے میں سامنے آئے۔ تاہم میکسیکو کے کیسز کو دیکھنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ یہ بیماری اب انسان سے انسان کو منتقل ہو رہی ہے۔ عام انفلوئنزا کی طرح یہ بیماری بھی کھانسی اور چھینکوں کے ذریعے دوسرے انسان کو منتقل ہو رہی ہے۔میکسیکو میں لوگ اس بیماری سے بچنے کے لئے ماسک کا استعمال کر رہے ہیںاِس کی علامات بھی عام انفلوئنزا کی طرح ہیں: یعنی بخار، تھکاوٹ کا احساس، کھانے پینے سے دل ا±چاٹ ہو جانا اور کھانسی۔ کچھ مریضوں کو زکام بھی ہو جاتا ہے، یا گلے میں درد اور متلی بھی ہونے لگتی ہے۔ تاہم عام انفلوئنزا کے باعث ”سوائن فلو“ میں دست اور متلی کی کیفیات زیادہ شدید ہو سکتی ہیں۔عالمی ادارہء صحت کی ڈائریکٹر مارگریٹ چن کے مطابق یہ بیماری ایک وبا کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ زیادہ تر انسانوں میں وائرس کی اِس نئی قسم کے خلاف قوتِ مدافعت نہ ہو۔ یہ فلو کتنا خطرناک ہے، ماہرین کے خیال میں اِس کا اندازہ آنے والے چند دنوں میں ہو جائے گا۔اب تک اِس مرض کے خلاف حفاظتی ٹیکے کا بھی امکان نہیں ہے۔ عام حفاظتی ٹیکے اِس وائرس کے خلاف بے اثر ہیں جبکہ کوئی نئی ویکسین ابھی تیار نہیں ہوئی۔ خاص طور پر امریکہ میں ایسی ویکسین تیار کرنے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔