پیرس(نیوز ڈیسک) فرانس کے ماہرِ ارضیات نے سیٹلائٹ تصاویر اور سافٹ ویئر کی مدد سے زمین کے نیچے چھپے آبی ذخائر کا پتا لگانے کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔فرانسیسی ماہرارضیات کے مطابق ان کے طریقے سے زمین کی پرتوں کو ایسے دیکھا جاسکتا ہے جس طرح کوئی پیاز کے چھلکے اتار کر اس کے اندر جھانکتا ہے، اس طرح دنیا کے پیاسے ترین علاقوں مثلاً سوڈان، کینیا، ایتھیوپیا اور دیگر ممالک میں پانی تلاش کیا جاسکتا ہے جب کہ اس نظام کو مجموعی طور پر واٹیکس سسٹم کا نام دیا گیا ہے جو 2002 میں بنایا گیا تھا۔ماہرین کے مطابق واٹیکس میں زمینی سطح کی گہرائی تک دیکھنے والے ریڈار سے مدد لی جاتی ہے جو زمین سے 30 فٹ بلند طیاروں اور خلا میں موجود سیٹلائٹ میں نصب ہوتے ہیں اور ریڈار کے ذریعے زمین پر موجود نمی کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے، اسے گراو¿نڈ پینیٹریٹنگ ریڈار کہا جاتا ہے جس میں ریڈار شعاعیں زمین کی گہرائی میں جاکر وہاں پتھر اور پانی سے ٹکرا کر پھیلتی ہیں اور اسے ریڈار پر دیکھا جاسکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تصاویر اور نقشوں کو ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر سے گزارا جاتا ہے جو 700 میٹر گہرائی تک دیکھ سکتا ہےاور اس گہرائی تک پانی موجود ہوتا ہے، اس ڈیٹا کو عام کرکے امدادی کارکن ایک لیپ ٹاپ سے ڈیٹا کو دیکھ کر پانی نکالنے کے لیے کسی جگہ پر کھدائی کا فیصلہ کرسکتا ہے کیونکہ ریڈار اسکرین پر پانی چمکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور یہ 94 فیصد درستگی کے ساتھ زیرِ زمین پانی کی پیش گوئی کرسکتا ہے۔ فرانسیسی ماہر نے 2013 میں کینیا کے خشک ترین علاقے ترکانہ میں زیرِزمین ایک بڑی جھیل دریافت کی تھی جو 320 میٹر گہرائی میں موجود تھی