کراچی (این این آئی)اسٹیٹ بینک آف پاکستان ( ایس بی پی) نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، بنیادی شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ستمبر میں عمومی مہنگائی نمایاں اضافے سے 5.6 فیصد تک پہنچ گئی ،قوزی مہنگائی 7.3 فیصد پر برقرار رہی جبکہ کمیٹی نے مستقبل کے مزید دھچکوں کو جذب کرنے اور اقتصادی سرگرمی کی جاری رفتار میں اضافے میں مدد کے لیے بیرونی اور مالیاتی بفرز کی مسلسل تیاری کی اہمیت پر زور دیا بشرطیکہ مہنگائی اور بیرونی کھاتے پر مزید دباؤ نہ ڈالا جائے،مربوط اور محتاط زری اور مالیاتی پالیسیوں کی اہمیت اور درکار ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے ،برآمدات میں معتدل اضافہ جاری رہا، جبکہ درآمدات قدرے تیز رفتار سے بڑھیں، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا، کارکنوں کی ترسیلات زر مستحکم رہیں، اور خالص مالی رقوم کی آمد کے باعث 17اکتوبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے،ستمبر 2025ء میں جاری کھاتے میں 110ملین ڈالر کا سرپلس درج کیا گیاجس سے مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ 594 ملین ڈالر تک محدود رہا۔
پیر کو جاری اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ ستمبر میں عمومی مہنگائی نمایاں اضافے سے 5.6 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ قوزی مہنگائی 7.3 فیصد پر برقرار رہی۔ کمیٹی نے محسوس کیا کہ وسیع تر معیشت پر حالیہ سیلاب کے اثرات گذشتہ اجلاس کے تخمینے کے مقابلے میں قدرے کم ہیں۔ فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات محدود رہنے کا امکان ہے جبکہ رسد میں بہت کم تعطل آیا۔ مزید برآں معاشی سرگرمیوں میں مزید تیزی آئی جس کا اندازہ بلند تعدد کے اقتصادی اظہاریوں میں زبردست نمو سے ہوتا ہے، ان تبدیلیوں کی بنیاد پر میکرو اکنامک منظرنامہ سابقہ اندازوں کے مقابلے میں بحیثیتِ مجموعی بہتر ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کمیٹی نے محسوس کیا کہ بعض عوامل کی بنا پر اس منظرنامے پر بے یقینی اثر انداز ہو سکتی ہے، یہ عوامل اجناس کی متغیر عالمی قیمتوں، تجارتی ٹیرف کے سامنے آنے والے تحرکات کے ساتھ برآمدی امکانات کو درپیش چیلنج، اور ملکی غذائی رسد میں ممکنہ خلل سے منسلک ہیں۔
اس تناظر میں اور پالیسی ریٹ میں سابقہ کمی کے اب تک سامنے نہ آنے والے اثرات کے پیشِ نظر زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ فیصلہ قیمتوں میں جاری استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے موزوں ہے۔اعلامیہ کے مطابق کمیٹی نے اپنے گذشتہ اجلاس سے اب تک ہونے والی چند تبدیلیوں کو پیشِ نظر رکھا۔ اول، وفاقی ادارہ شماریات (پی بی ایس) نے مالی سال 25ء میں حقیقی جی ڈی پی نمو کو نظرِثانی کے بعد 3 فیصد کر دیا جس کا پہلے تخمینہ 2.7 فیصد تھا زراعت پر وفاقی کمیٹی کا خریف کی اہم فصلوں کا ابتدائی تخمینہ حالیہ سیلاب کے باوجود گذشتہ سال کی پیداوار کے تقریباً مساوی ہے، یورو بانڈ کے 500 ملین ڈالر کی ادائیگی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کا ای ایف ایف اور آر ایس ایف ریویوز پر آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ ہو گیا۔ اسٹیٹ بینک،آئی بی اے کے احساسات کے حالیہ سروے میں صارفین اور کاروباری اداروں، دونوں کی مہنگائی کی توقعات میں کمی آئی ہے، آخری یہ کہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں ردوبدل کے ملے جلے رجحانات دکھائی دیے ہیں، تیل کی قیمتوں میں زیادہ اتار چڑھاؤ آیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق ان تبدیلیوں کی روشنی میں، زری پالیسی کمیٹی کے خیال میں مہنگائی کو وسط مدت میں 5 تا 7 فیصد کی حد میں مستحکم رکھنے کے لیے حقیقی پالیسی ریٹ خاصا مثبت ہے۔کمیٹی نے مستقبل کے مزید دھچکوں کو جذب کرنے اور اقتصادی سرگرمی کی جاری رفتار میں اضافے میں مدد کے لیے بیرونی اور مالیاتی بفرز کی مسلسل تیاری کی اہمیت پر بھی زور دیا بشرطیکہ مہنگائی اور بیرونی کھاتے پر مزید دباؤ نہ ڈالا جائے۔ زری پالیسی کمیٹی نے مربوط اور محتاط زری اور مالیاتی پالیسیوں کی اہمیت اور درکار ساختی اصلاحات پر بھی زور دیا تاکہ پائیدار اقتصادی نمو کی طرف جاری پیش رفت کو یقینی بنایا جاسکے۔ اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ بلند تعدد کے حالیہ اظہاریے نمو کی پائیدار رفتار کی نشاندہی کرتے ہیں، زراعت میں خریف کی اہم فصلوں کے تخمینے توقع سے بہتر رہے، نیز سٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر بھی فصلوں کی بہتر صورتِ حال کی جانب اشارہ کرتی ہیں،خام مال کی بہتر دستیابی کے ساتھ بعد از سیلاب پیداوار میں ممکنہ اضافہ آئندہ ربیع کی فصل کے لیے بہتر امکانات کی نشاندہی کرتا ہے۔
صنعت میں ، بڑے پیمانے کی اشیاسازی میں جولائی تا اگست مالی سال 26ء کے دوران 4.4 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گذشتہ برس کی اسی مدت میں معمولی تخفیف ہوئی تھی،بلند تعدد کے اظہاریوںـ جیسے کہ گاڑیوں، سیمنٹ، کھاد اور پٹرولیم مصنوعات کی فروخت میں مضبوط نمو کے علاوہ نجی شعبے کی جانب سے قرضے کی مضبوط طلب اور مثبت کاروباری احساسات نے صنعت کے منظرنامے کو بہتر بنایا ہے، اجناس کی پیداوار والے شعبوں میں اس مثبت پیش رفت سے توقع ہے کہ شعبہ خدمات کی سرگرمیوں میں اضافے کو مدد ملے گی۔ ان رجحانات کی روشنی میں گذشتہ جائزے کے مقابلے میں نمو کا منظرنامہ بہتر ہوا ہے اور اندازہ ہے کہ حقیقی جی ڈی پی نمو پچھلے تخمینے کی حد 3.25 تا 4.25 فیصد کے بالائی نصف میں رہے گی۔ اعلامیہ کے مطابق ستمبر 2025ء میں جاری کھاتے میں 110ملین ڈالر کا سرپلس درج کیا گیاجس سے مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی خسارہ 594 ملین ڈالر تک محدود رہا۔ یہ کافی حد تک کمیٹی کی توقعات کے مطابق تھا۔ برآمدات میں معتدل اضافہ جاری رہا جبکہ درآمدات قدرے تیز رفتار سے بڑھیں، جس کی وجہ سے تجارتی خسارہ بڑھ گیا۔ اس کے ساتھ کارکنوں کی ترسیلات زر مستحکم رہیں اور خالص مالی رقوم کی آمد کے باعث 17اکتوبر تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 14.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ آگے چل کر درآمدات میں مزید اضافے کا امکان ہے، جو معاشی سرگرمی میں متوقع اضافے سے ہم آہنگ ہے؛ تاہم سیلاب کے باعث درآمدی ضروریات پچھلے تخمینے کے مقابلے میں کچھ کم رہنے کی توقع ہے۔ مزید برآں، کارکنوں کی ترسیلات زر کے منظرنامے میں مزید بہتری آئی ہے، مجموعی طور پر،مالی سال 26ء میں جاری کھاتے کا خسارہ پہلے کی تخمین شدہ حد جی ڈی پی کے صفر تا ایک فیصد تک رہنے کی توقع ہے، جاری کھاتے کے محدود خسارے اور منصوبہ بندی کے مطابق سرکاری رقوم کی آمد سے تخمینہ ہے کہ دسمبر 2025ء تک اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتری کے ساتھ 15.5 ارب ڈالر اور جون 2026ء تک تقریباً17.8 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ جائیں گے۔ اعلامیہ کے مطابق مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکسوں کی وصولی میں 12.5 فیصد سال بسال کا قابل ذکر اضافہ ہوا تاہم مجموعی طور پر 2.9 ٹریلین روپیکی وصولی ہدف کے مقابلے میں 198 ارب روپے کم رہی۔اسی طرح، پہلی سہ ماہی کے دوران اسٹیٹ بینک کی جانب سے خاصے منافع کی منتقلی اور پیٹرولیم مصنوعات کے محصولات کی بلند سطح سے غیر ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوگا۔
مذکورہ پیش رفت کی بنیاد پر مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی مالیاتی اور بنیادی توازن دونوں کے سرپلس رہنے کا امکان ہے۔ آگے چل کر زری پالیسی کمیٹی کو توقع ہے کہ سیلاب کے بعد دوبارہ آباد کاری کے اخراجات کو بجٹ میں مختص مالیاتی وسائل کے ذریعے پورا کیا جائے گا۔ اس لیے ایم پی سی نے مجموعی اور بنیادی توازن کے اہداف اور طویل مدتی مالیاتی پائیداری کو حاصل کرنے کے لیے مالیاتی نظم و ضبط کا تسلسل برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی کے گذشتہ اجلاس کے بعد سے 10 اکتوبر 2025ء تک زرِ وسیع (M2) کی نمو کم ہو کر 12.3 فیصد پر آگئی ، جس کی وجہ بینکوں کے خالص ملکی اثاثوں میں گراوٹ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ بینکوں کی جانب سے غیر بینک مالی اداروں کو دیے جانے والے قرضوں کے حجم میں نمایاں کمی ہے، خالص میزانی قرض گیری بھی محدود رہی جو جاری مالیاتی یکجائی کی عکاسی کرتی ہے، اس کی بدولت نجی شعبے کو قرض کی فراہمی کی گنجائش پیدا ہوئی۔ نجی شعبے کو قرضے میں 17 فیصد اضافہ درج کیا گیا جسے معاشی بحالی کے تسلسل اور مالی حالات میں آسانی سے سہارا ملا۔نجی شعبے کو قرض میں اضافہ وسیع البنیاد تھا، یہ اضافہ جاری سرمائے کے قرضوں ، معین سرمایہ کاری قرضوں اور صارفی قرضوں کی مد میں ریکارڈ کیا گیا۔قرض لینے والے اہم شعبوں میں ٹیکسٹائل، ٹیلی مواصلات ، کیمیکلز، اور تھوک اور خردہ تجارت شامل تھے۔ زرِ وسیع کے واجبات کے لحاظ سے ، زیرِ گردش کرنسی میں سال بہ سال اضافہ ہوا جبکہ ڈپازٹ کی نمو میں کمی آئی ، اس کے نتیجے میں کرنسی تا ڈپازٹ تناسب بڑھ کر 37.6 فیصد ہو گیا۔ زیرِ گردش کرنسی میں یہ نمایاں اضافہ زرِ بنیاد کی نمو کو بلند سطح پر برقرار رکھنے کا سبب بنا۔
اعلامیہ کے مطابق ستمبر میں عمومی مہنگائی خاصی بڑھ کر 5.6 فیصد تک پہنچ گئی، جو اگست میں 3.0 فیصد تھی۔ یہ امر بڑی حد تک سیلاب کے باعث غذائی قیمتوں میں متوقع اضافے؛ توانائی کی قیمتیں بڑھنے اور جامد قوزی مہنگائی کا عکاس ہے۔ زری پالیسی کمیٹی نے محسوس کیا کہ گذشتہ سیلابوں کے برعکس قیمتوں میں حالیہ اضافہ توقع سے قدرے کم ہے، یہ بات حساس اشاریہ قیمت (ایس پی آئی) کے اعدادوشمار میں بلند تعّدد (frequency) کی اہم غذائی اشیا، جیسے گندم اور اس کی منسلکہ مصنوعات، چینی، اور تلف پذیر اشیا کی قیمتوں میں حالیہ سْست روی سے واضح ہوتی ہے تاہم کمیٹی نے توقع ظاہر کی کہ مالی سال 26ء کی دوسری ششماہی میں مہنگائی طے شدہ ہدف کی اْوپری سطح سے تجاوز کرجائے گی ، وہ بھی چند مہینوں کے لیے،اور بعدازاں مالی سال 27ء میں کم ہوکر ہدف کی حد میں واپس آجائے، یہ منظرنامہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں اتار چڑھائو، مستقبل میں توانائی کی قیمتوں میں ردّوبدل کی شدت اور وقت، اور گندم اور اس کی منسلکہ مصنوعات نیز تلف پذیر غذائی اشیا کی قیمتوں میں غیریقینی سے پیدا ہونے والے خطرات سے مشروط ہے۔















































