جمعہ‬‮ ، 26 ستمبر‬‮ 2025 

ملک میں سولر پینلز کے استعمال کا بڑھتا رجحان، ماحولیاتی ماہرین نے خبردار کر دیا

datetime 26  ستمبر‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (این این آئی)پاکستان میں توانائی بحران ،بجلی کی بڑھتی قیمتوں نے شہریوں کو متبادل ذرائع کی طرف راغب کیا ہے جن میں سب سے نمایاں رجحان سولر انرجی ہے۔تاہم ماہرین خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں طوفانی بارشیں، سیلاب اور ناقص فضلہ مینجمنٹ اس نظام کو نئے ماحولیاتی بحران میں بدل سکتا ہے ۔ماہر ماحولیات اور پنجاب یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان طارق کے مطابق سولر پینلز اگر پانی میں ڈوب جائیں تو ان کے سلیکون خلیے اور فریم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ برقی کنکشن ناکارہ ہو جاتے ہیں، خاص طور پر بیٹریاں شارٹ سرکٹ یا آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لیڈ ایسڈ اور لیتھیم آئن بیٹریاں جب خراب ہوں تو زہریلے کیمیکلز مٹی اور زیر زمین پانی میں شامل ہو کر سانس، جلد، گردے اور جگر کے امراض کا باعث بنتے ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال میں لاکھوں سولر پینلز اور ہزاروں میگاواٹ گنجائش رکھنے والی بیٹریاں درآمد کیں چونکہ سولر پینلز کی اوسط عمر 20سے 25 سال اور بیٹریوں کی پانچ سے دس سال ہے، اس لیے آنے والے برسوں میں ان کے ناکارہ ہونے سے پیدا ہونے والا کچرا کئی گنا بڑھنے کا امکان ہے۔ماہرین کے مطابق اگر ابھی سے انتظامی ڈھانچہ نہ بنایا گیا تو یہ بحران موجودہ الیکٹرانک کچرے (ای ویسٹ) کی طرح شدت اختیار کر سکتا ہے۔سابق جیولوجسٹ ڈاکٹر نعیم مصطفی کے مطابق مسئلے کا ایک حل اربن مائننگ ہے جس کے تحت شہروں میں پھینکے گئے پرانے آلات سے قیمتی دھاتیں جدید اور محفوظ طریقوں سے نکالی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ عمل منظم ہو تو معیشت کو فائدہ اور ماحول کو نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی اعجاز نے بتایا کہ فی الحال پاکستان میں ای ویسٹ مینجمنٹ کی کوئی جامع پالیسی موجود نہیں، تاہم اس پر کام جاری ہے اور جلد ایک مؤثر حکمت عملی متعارف کرائی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سولر تنصیبات کے لیے نئے حفاظتی معیارات وضع کیے گئے ہیں تاکہ پینلز بارش اور تیز ہوا کے اثرات برداشت کر سکیں، مگر ماہرین کے مطابق یہ اقدامات ناکافی ہیں۔

سولرپینلز کے امپورٹر میاں عبدالخالق نے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر سولر ویسٹ مینجمنٹ پالیسی اور ری سائیکلنگ ڈھانچے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر توانائی کا یہ متبادل نظام اپنے ماحولیاتی فوائد کھو بیٹھے گا۔ انہوں نے کہاکہ ناکارہ پینلز اور بیٹریوں سے ایلومینیم، تانبا اور سلکان دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ری سائیکلنگ مراکز قائم کرنا ہوں گے، جنہیں ٹیکس مراعات دی جائیں تاکہ سرمایہ کار اس شعبے میں آئیں۔ماحولیاتی وکیل التمش سعید کے مطابق یورپی یونین میں ویسٹ الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانک ایکوئپمنٹ ڈائریکٹو سختی سے نافذ ہے اور جاپان میں ری سائیکلنگ کے واضح قوانین موجود ہیں، مگر پاکستان میں اس حوالے سے ضابطہ بندی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بین الاقوامی سطح پر بیسل کنونشن خطرناک کچرے کی سرحد پار منتقلی کو ریگولیٹ کرتا ہے، لیکن پاکستان میں اس پر عمل درآمد کمزور ہے۔ڈاکٹر سلمان طارق نے زور دیا کہ حکومت توسیعی ذمہ داری برائے سازندگان کے اصول کو اپنائے تاکہ کمپنیوں کو اپنی مصنوعات کے بعد از استعمال مرحلے کی ذمہ داری دی جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوا تو نہ صرف ماحول محفوظ ہوگا بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ بصورت دیگر صاف توانائی کا خواب نئے ماحولیاتی بحران میں تبدیل ہو سکتا ہے۔



کالم



1984ء


یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…