اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پشاور: خیبر پختونخوا میں عالمی بینک کے تعاون سے جاری ایک سرکاری منصوبے میں 10 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد کی مبینہ خردبرد کا انکشاف ہوا ہے۔ اس اسکینڈل میں جعل سازی کے جدید طریقے استعمال کیے گئے اور ایک سرکاری بینک کی مبینہ غفلت یا ملی بھگت کے ذریعے رقم نکالی گئی۔دستاویزات کے مطابق یہ رقم 3 جولائی 2025 کو منصوبے کے اکاؤنٹ سے نکالی گئی، حالانکہ صوبائی محکمہ خزانہ نے 25 جون کو تمام ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز منجمد کر دیے تھے جو نئے مالی سال 2025-26 کے آغاز پر 24 جولائی تک بحال نہیں ہوئے تھے۔
پراجیکٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رقوم جعلی چیک اتھارٹی لیٹر اور جعلی ریفرنس نمبر کے ذریعے جاری کی گئیں جبکہ بینک نے تصدیق کے بغیر کروڑوں روپے کلیئر کر دیے۔ اس پر خیبر پختونخوا ہیومن کیپیٹل انویسٹمنٹ پراجیکٹ (KP-HCIP) کے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU) نے بینک حکام سے فوری رابطہ کیا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فراڈ کی تحقیقات ایف آئی اے سے کرائی جائیں اور نکالی گئی رقم واپس سرکاری اکاؤنٹ میں جمع کرائی جائے۔دستاویزات کے مطابق عالمی بینک کے اشتراک سے 26 ارب روپے کی لاگت سے جاری اس منصوبے کے “ریوالونگ فنڈ اسائنمنٹ اکاؤنٹ” (نمبر 0386004174006254) سے پشاور کینٹ برانچ کے ذریعے 3 جولائی کو تین چیکس کی بنیاد پر 10 کروڑ 60 لاکھ 44 ہزار روپے نکالے گئے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ایک ہی چیک نمبر کو دوبارہ استعمال کیا گیا جس سے معاملہ مزید مشکوک ہو گیا۔مزید انکشاف ہوا ہے کہ یہ چیکس مبینہ طور پر جعلی اتھارٹی لیٹرز اور ریفرنس نمبرز پر کلیئر کیے گئے جن کی تصدیق نہ تو پی ایم یو نے کی اور نہ ہی اکاؤنٹنٹ جنرل خیبر پختونخوا کے دفتر نے۔ جعل سازوں نے جعلی شیڈولز اور نقلی دستخطوں کے ساتھ سرکاری مہر بھی استعمال کی۔پروجیکٹ ڈائریکٹر آصف شہزاد نے بتایا کہ اس جعل سازی کو منصوبے کے عملے نے بے نقاب کیا۔ ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں نہ تو کسی نئی چیک بک کی درخواست دی گئی اور نہ ہی کسی کو اس کی اجازت دی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ چیک بک انہوں نے کبھی دیکھی تک نہیں، لہٰذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بک جعل سازوں کے ہاتھ کیسے لگی؟انہوں نے مزید کہا کہ سرکاری فنڈز کے اجرا کے لیے کئی سطحوں پر تصدیق ضروری ہوتی ہے، خاص طور پر اس قدر بڑی رقم کے لیے، لیکن بینک نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ادھر بینک کے ریجنل ایگزیکٹو آپریشن توقیر احمد نے تصدیق کی ہے کہ شکایت موصول ہو چکی ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ چیک کلیئرنس بینک کی جانب سے ہوئی لیکن رقم ایک نجی بینک سے نکلوائی گئی ہے۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ ممکنہ طور پر اس اسکینڈل میں منصوبے کے اندرونی اہلکار بھی شامل ہو سکتے ہیں، تاہم حتمی حقائق انکوائری مکمل ہونے پر سامنے آئیں گے۔