جمعرات‬‮ ، 30 جنوری‬‮ 2025 

دجال آ چکا ہے

datetime 30  جنوری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل برطانیہ کے وزیراعظم تھے‘ جرمنی کے آمر اوڈلف ہٹلر نے 1938ء میں چیکو سلواکیہ کے علاقے سوڈی ٹین لینڈ (Sudetenland) پر حملہ کردیا جس ک بعد یورپ پریشان ہو گیا‘ چیمبرلین نے فوری طور پر جرمنی کا دورہ کیا‘ ہٹلر نے اسے اپنی فوج‘ گولہ بارود اور جنگی جہازوں کے کارخانے دکھائے اور برطانوی وزیراعظم کو یقین دلایا یہ میں نے صرف اپنے دفاع کے لیے اکٹھے کیے ہیں‘ مجھے خطرہ ہے سوویت یونین مجھ پر حملہ آور ہو جائے گا‘ میںاگر مضبوط ہوں گاتو یورپ بچے گا ورنہ روسی سپین تک پورے یورپ کو نگل جائیں گے ‘ چیمبرلین نے اس دوران شک کا اظہار کیا تو ہٹلر نے اسے دفاعی معاہدے کی پیش کش کر دی لہٰذا 30 ستمبر 1938ء کو میونخ میں جرمنی اور برطانیہ کے درمیان نو وار ایگریمنٹ ہو گیا‘

اس معاہدے میں فرانس اور اٹلی بھی شامل ہو گئے‘ چیمبرلین مطمئن ہو گیا‘ اس کا خیال تھا ہٹلر خود کو صرف مشرقی یورپ کے جرمن علاقوں تک محدود رکھے گا لیکن سرونسٹن چرچل اس دعوے سے اتفاق نہیں کرتا تھا‘ اس کا کہنا تھا ہٹلر بہت جلد سنٹرل یورپ پر قبضہ کرے گا اور برطانیہ پر بھی حملہ آور ہو گا‘ ہمیںابھی سے اپنے دفاع کا بندوبست کر لینا چاہیے‘ چیمبرلین اس دعوے پر اس کا مذاق اڑاتا تھا یوں برطانیہ کے ایوان نمائندگان میں دونوں کے درمیان زبردست بحث ہوتی تھی‘ چرچل اپنی ہر تقریر میں کہتا تھا جرمنی کے پاس دفاع سے زیادہ اسلحہ اور فوج ہے اگر اس نے کوئی بڑی جنگ نہیں لڑنی تو پھر اس نے اتنی بڑی فوج اور اتنا زیادہ اسلحہ کیوں جمع کیا ہوا ہے؟ ہٹلر کوئی بڑا سوچ رہا ہے‘ اس کی کوئی بڑی پلاننگ ہے چناں چہ ہمیں میونخ ایگریمنٹ کے باوجود تیار رہنا چاہیے‘

ونسٹن چرچل کا یہ خدشہ بعدازاں سچ ثابت ہوا‘ ہٹلر نے پہلے میونخ ایگریمنٹ کے بعد مشرقی یورپ نگلا اور پھر اس نے پولینڈ اور پھر ڈنمارک‘ ناروے‘ نیدرلینڈ‘ لکسمبرگ‘ فرانس‘ یوگوسلاویہ اور یونان پر قبضہ کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے برطانیہ پر بھی فضائی حملے شروع کر دیے‘ یہ حملے اس قدر شدید اور خوف ناک تھے کہ چیمبرلین نے استعفیٰ دے دیا اور چرچل کو وزیراعظم بنوا دیا اور اس کے بعد چرچل نے نہ صرف برطانیہ کو بچا لیا بلکہ ہٹلر کو شکست دے کر پوری دنیا بھی بچا لی‘ چرچل سے اس زمانے میں پوچھا جاتا تھا ’’تمہیں میونخ ایگریمنٹ کے بعد کیسے معلوم تھا ہٹلر برطانیہ تک ضرور آئے گا‘‘ چرچل کا جواب ہوتا تھا ہٹلر کی جنگی تیاری اور میونخ ایگریمنٹ کا بیلنس ٹھیک نہیں تھا لہٰذا میرا اندازہ تھا یہ شخص اتنی فوج اور اتنے بارود کے ساتھ مشرقی یورپ تک محدود نہیں رہے گا اور پھر یہی ہوا‘‘۔

ہم اب تھوڑی دیر کے لیے دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر اور چرچل کو سائیڈ پر رکھتے ہیں اور امریکا کے تازہ ترین صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف آتے ہیں‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے تابڑ توڑ اقدامات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ ٹرمپ نے دو دن قبل کولمبیا کے ذریعے دنیا کو مزید پریشان کر دیا‘ امریکی جیلوں میں کولمبیا کے غیرقانونی شہری بند ہیں‘ ٹرمپ نے پہلے صدارتی دن تمام غیر قانونی تارکین کو نکالنے کا حکم جاری کر دیا‘ اس کا آغازکولمبیا سے کیا گیا‘امریکی حکومت نے کولمبین شہریوں کے دو جہاز بھرے اور انہیں بگوٹا بھجوا دیا‘ کولمبیا کے صدرگستاوو پیٹرونے ان جہازوں کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی‘ ڈونلڈ ٹرمپ کو پتا چلا تو اس نے نہ صرف کولمبیا کی امپورٹس پر 25 فیصد ڈیوٹی لگا دی بلکہ اس ڈیوٹی کو ایک ہفتے میں 50 فیصد تک لے جانے کا آرڈر بھی دے دیا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ ساتھ کولمبین حکومت کے تمام سرکاری عہدیداروں کے امریکا میں سفر اور حکومتی پارٹی کے تمام ارکان‘ ان کے خاندانوں اور سپورٹرز کے ویزے بھی منسوخ کر دیے‘ ٹرمپ نے یہ تمام احکامات ایکس پر ٹویٹ کے ذریعے دیے‘ کولمبیا امریکا کو سالانہ 14 بلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے جن میں کافی پہلے نمبر پر آتی ہے۔ ’’سٹار بکس‘‘ کو لمبین کافی کا سب سے بڑا خریدار ہے‘ اس ٹویٹ کے ساتھ ہی امریکا میں کافی مہنگی ہوگئی لیکن کولمبیا میں اس کی مارکیٹ کریش کر گئی‘

کولمبین ارکان اسمبلی ‘ حکمران جماعت کے ممبرز اور ان کے خاندان اور بیوروکریٹس اور بزنس مینوں کی فیملیز بھی پریشان ہو گئیں چناں چہ صرف تین گھنٹے بعد کولمبیا کی حکومت گھٹنوں پر آگئی اور اس نے نہ صرف امریکی جہازوں کو اترنے اور کولمبین تارکین وطن کو واپس لینے کی اجازت دے دی بلکہ امریکا کی تمام پابندیاں اور شرائط بھی مان لیں‘ یہ ٹرمپ کا پہلا ’’ڈیمو‘‘ تھا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ پوری دنیا میں امریکی امدادی سرگرمیاں بھی معطل کر دیں‘ یہ عالمی فورمز اور ایگریمنٹس سے بھی نکل گیا‘ یوکرائین جنگ میں یوکرائین کی مدد سے بھی ہاتھ کھینچ لیا‘ میکسیکو کو بھی ٹائیٹ کر دیا‘ افغانستان اور جنگ زدہ افریقی ملکوں کی امداد بھی بند کر دی ہے اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے رقم دینے سے بھی انکار کر دیا‘ ٹرمپ نے اس کے ساتھ غزہ کے مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے اور اردن اور مصر کو انہیں اپنے علاقوں میں آباد کرنے کا حکم بھی دے دیا ‘آپ تصور کیجیے اگر اس حکم پر عمل ہو جاتا ہے تو غزہ کا علاقہ بھی فلسطین کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور یہ امریکا کے پاس چلا جائے گا یا پھر ٹرمپ اسے اسرائیل کے حوالے کر دے گا اور یوں اسرائیل کے سائز میں اضافہ ہو جائے گا اور اس کے بعد اسرائیل حضرت سلیمان ؑ کے زمانے کے اسرائیل کی طرف بڑھنے لگے گا‘ اسرائیلی اسے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کہتے ہیں‘ مدینہ منورہ بھی اس کا حصہ ہے‘

مصر اور اردن سردست انکار کر رہے ہیں لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ ڈٹ گیاتوکولمبیا کی طرح ان کو بھی امریکا کا حکم ماننا پڑے گا ورنہ امریکا ان کی امداد بند کر دے گا اور یہ دونوں بھی گھٹنوں پر آنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ دوسری طرف ٹرمپ نے سعودی کرائون پرنس سے امریکا میں ہزار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا مطالبہ کر دیا‘ محمد بن سلمان نے فوری طور پر 600 ارب ڈالر کی پیش کش کرکے جان چھڑائی‘ سعودی عرب کے بعد یو اے ای اور قطر کی باری ہے‘ انہیں بھی کم از کم پانچ سو ارب ڈالر امریکا میں لگانا پڑیں گے‘ ٹرمپ امپورٹس کا ٹیرف بھی بڑھا کر رہے گا‘یہ امپورٹس کو بھی نصف تک لے آئے گا‘ امریکا میں امیگریشن پربھی پابندی لگ چکی ہے اور چین اور امریکا کی معاشی لڑائی بھی اب سر پرکھڑی ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ یہ سب کچھ کیوںکر رہا ہے؟ اس کے دو جواب ہو سکتے ہیں‘ پہلا جواب یہ صرف اور صرف امریکا کے بارے میں سوچ رہا ہے‘

یہ امریکیوں کا صدر ہے اور امریکا کے صدر کو اپنے لوگوں کے مفاد کو فوقیت دینی چاہیے اور یہ دے رہا ہے‘ اس کے فیصلوں سے اب امریکی معیشت بہتر ہو گی‘ مہنگائی میں کمی آئے گی‘ بے روزگاری نیچے آئے گی‘ سٹاک ایکس چینج میں استحکام آئے گا اور عام امریکی شہری کا معیار زندگی بلند ہو گا‘ یہ چین اور بھارت سے درآمدات کی بجائے ’’میڈ ان امریکا‘‘ کو بھی بڑھانا چاہتا ہے تاکہ امریکی صنعت ’’ری وائیو‘‘ کر سکے‘ یہ بزنس مین ہے اور بزنس مین پیسہ بچانا اور کمانا جانتے ہیں لہٰذا اس کی نظر ان معاشی سوراخوں پر ہے جہاں سے امریکی سرمایہ رس رہا ہے‘ یہ امریکا پر تارکین وطن کا بوجھ بھی کم کر رہا ہے‘ اس کا خیال ہے ہم بھکاریوں اور مجرموں میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے ہماری معیشت کریش کر رہی ہے اور یہ امریکا کو گریٹ بنانا چاہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ٹرمپ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اس کا دوسرا جواب یہ ہے یہ کوئی بڑا پلان تیار کر رہا ہے‘ یہ بڑا سوچ رہا ہے‘ امریکا اسلحے اور وار ٹیکنالوجی میں نمبرون ہے‘اس کے پاس اس وقت کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے پیسہ‘ امریکا کی معیشت بری طرح مقروض ہو چکی ہے اور اس گرتی ہوئی معیشت اور قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے امریکا کوئی بڑی گیم پلان نہیں کر سکتا‘دوسری طرف دنیا میں اگر کسی قوم یا ملک کے پاس سرمایہ ہے تو وہ ہے چین ‘ چین کے پاس فارن ایکس چینج ریزروز بھی ہیں اور ٹیکنالوجی بھی‘ چین نے چھ ملین ڈالر میں ’’ڈیپ سیک‘‘ بنا کر نہ صرف امریکی چیٹ جی پی ٹی کا بیڑہ غرق کر دیا بلکہ امریکا کا ٹیکنالوجی کا غرور بھی مٹی میں ملا دیا چناں چہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت صرف دو چیزیں چاہییں‘ ٹیکنالوجی اور پیسہ اور یہ بڑی تیزی سے اس سمت دوڑ رہا ہے‘

اس نے اقتدار سنبھالتے ہی جس طرح ٹیکنالوجی کو فوقیت دی‘ اس نے جس طرح ’’آئی ٹی‘‘ کی کمپنیوں کو ساتھ ملایا ‘ جس طرح ان میں سرمایہ کاری شروع کرائی‘جس طرح سرمائے کی لیکیج روکنا شروع کی‘ جس طرح پیسہ جمع کرنا شروع کیا اور جس طرح امریکا کو دوسرے ملکوں کی محتاجی اور ضرورت سے آزاد کرنا شروع کیا وہ یہ ثابت کرتا ہے اسے بہت جلدی ہے‘ یہ جلد سے جلد امریکا کا امپورٹس پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے‘ یہ اپنے ریزروز بہتر بنانا چاہتا ہے تاکہ یہ اپنا منصوبہ مکمل کر سکے‘ مجھے ڈونلڈ ٹرمپ کے اندر چین کے موجودہ صدر شی چن پنگ کی سپرٹ بھی نظر آ رہی ہے‘ صدرشی چن پنگ نے 2018ء میں اپنے آپ کو تاحیات صدر بنوا لیا تھا‘

مجھے خطرہ ہے ڈونلڈ ٹرمپ بھی کہیں خود کو تاحیات صدر نہ بنوا لے یا امریکا کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اپنی حکومت کا اعلان نہ کر دے اگر اس کا پلان یہ ہے تو پھر یہ اس کا آغاز کینیڈا اور گرین لینڈ سے کرے گا اگر اس نے گرین لینڈ اور کینیڈا پر قبضہ کر لیا تو پھر اسے تاحیات صدر بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو پھر آپ دنیا کی صورت حال کا اندازہ خود کر لیجیے‘ ایک طرف روس میں پیوٹن تاحیات صدر ہوگا‘ دوسری طرف چین میںشی چن پنگ تاحیات صدر ہوگا اور تیسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی واحد سپر پاور کا تاحیات صدر ہوگا اور اگر اس کے بعد بھی تیسری عالمی جنگ شروع نہیں ہوتی تو پھر یہ واقعی معجزہ ہو گا‘ اللہ تعالیٰ اب دنیا اور زمین دونوں پر رحم کرے ‘ کیوں؟ کیوں کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے دجال آ چکا ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



دجال آ چکا ہے


نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…