اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے بدھ کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں آئندہ مالی سال 25-2024 کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس کا مکمل متن درج ذیل ہے۔
جناب سپیکر!
1۔ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ فروری 2024 کے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا میاں محمد نواز شریف صاحب، بلاول بھٹو زرادری صاحب، خالد مقبول صدیقی صاحب، چوہدری شجاعت حسین صاحب، عبدالعلیم خان صحاب اور جناب خالد مگسی صاحب کی رہنمائی کیلئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
جناب سپیکر!
2۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی اور معاشی چیلنجوں کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیش رفت متاثر کن رہی ہے۔ ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی قوتوں کے مل بیٹھنے کے مطالبات کی بازگست کئی بار سنی ہے۔ آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ ہم اس موقع کو ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ میں تمام معزز اراکین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے حکومت کی کاوشوں میں تعاون کریں۔
جناب سپیکر!
3۔ بجٹ کی تفصیلات پیش کرنے سے پہلے میں اس بجٹ کے پس منظر کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ میاں محمد نواز شریف نے پاکستان میں 1990 میں جن معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی ان کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں home grown reform agenda کے ذریعے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پا کر ترقی کی رفتار کو بڑھایا جائے گا۔
4۔ کچھ ہی عرصہ قبل پاکستان کی معیشت کو مشکل حالات کا سامنا تھا کیونکہ سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 2 ہفتوں سے کم مدت کی درآمدات کے لیے ہی کافی تھے۔ محض ایک سال میں پاکستانی روپے کی قدر میں چالیس (40) فیصد کمی واقع ہو چکی تھی۔ اقتصادی ترقی تقریبا صفر کے قریب تھی اور افراط زر اس سطح پر پہنچ گیا تھا کہ لوگ تیزی سے غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے تھے۔ ان حالات سے نکلنا خاصا مشکل نظر آ رہا تھا۔
جناب سپیکر!
5۔ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور نئے پروگرام سے متعلق بہت غیریقینی کیفیت تھی۔ نئے IMF Programme میں تاخیر انتہائی مشکلات پیدا کر سکتی تھی۔ مجھے وزیراعظم جناب محمد شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کی تعریف کرنی ہوگی جس نے آئی ایم ایف کے ساتھ Stand by Arrangement معاہدہ کیا۔ اس پروگرام کے تحت لیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی اور غیریقینی کی صورتحال اختتام کو پہنچی۔
جناب سپیکر!
6۔ گزشتہ چند مہینوں میں ہماری مسلسل کاوشوں کے نتائج ہمیں تسلی دیتے ہیں کہ ہم صحیح سمت میں گامزن ہیں۔ مہنگائی جو کہ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کی توجہ کا مرکز ہے، مئی میں کم ہو کر تقریبا بارہ (12) فیصد کے قریب آ گئی ہے۔ اشیائے خوردونوش اب عوام کی پہنچ میں ہیں۔ درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ زرمبادلہ کی شرح مستحکم رہی ہے۔ ہماری مالیاتی استحکام کی کوششیں ثمر آور ہو رہی ہیں اور سرمایہ کار معیشت کے متعدد شعبوں میں انویسٹمنٹ کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کا اعلان مہنگائی پر قابو پانے کی کوششوں کی تائید اور ثبوت ہے۔ معیشت کی بحالی کی خاطر انتھک محنت کے لیے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی Coalition Government اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔
جناب سپیکر!
7۔ گزشتہ سال میں حاصل ہونے والی یہ کامیابیاں معمولی نہیں ہیں ان کے نتیجے میں ملک ایک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے اور دیرپا ترقی کے ایسے سفر کا آغاز ہو چکا ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے۔ یہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کا عندیہ ہیں۔ انشا اللہ۔
جناب سپیکر!
8۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقی کی موجودہ رفتار کو تیز کرتے ہوئے معاشی خودانحصاری کی منزل کو حاصل کریں۔ یہ ایسا کام نہیں کہ راتوں رات اسے کر دکھایا جائے۔ اس کیلئے ہمیں سخت محنت، ایک home-grown اصلاحاتی پلان پر تمام اداروں اور عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جناب سپیکر!
9۔ ہم اس امید کے ساتھ اپنے home-grown ریفارم ایجنڈے کو پختہ ارادے اور عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان جلد ہی Inclusive اور Sustainable Growth کے دور کی طرف لوٹ آئے گا۔ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راستہ بہت کٹھن ہے، ہمارے پاس Options محدود ہیں مگر جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں یہ اصلاحات کا وقت ہے۔
10۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں پرائیویٹ سیکٹر کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کی بجائے پاکستان کے عوام کو اپنی ترجیح بنائیں۔ حالیہ دہائیوں سے ہم Economic Imbalance کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں، اس کی وجہ وہ structural factors ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور برآمدات دبائو کا شکار ہیں۔ ماضی میں ریاست پر غیرضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقابل برداشت ہو گئے۔ اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیداواری صلاحیت اور کم آمدن والی ملازمتوں کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
جناب سپیکر!
11۔ اس Low Growth Cycle سے باہر آنے کے لیے ہمیں Structural Reforms کو آگے بڑھانا اور معیشت میں Incentives کو صحیح کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ:
٭ ہمیں ایک Government-determined Economy سے ایک Market Driven Economy میں تبدیل ہونا ہوگا۔
٭ ہمارے معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔
٭ ہماری معاشی ترقی کو Consumption based کی بجائے۔
٭ Saivngs and Investment based ہونا چاہئے۔
جناب سپیکر!
12۔ معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں لاتے ہوئے ہمیں Equity اور Inclusion کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں درج ذیل پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے:
٭ تمام modern economies کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے Footprint کو صرف Essentail Public Services تک محدود کرنا ہوگا۔
٭ پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور
٭ Regulatory and Investment Climate Improvements کرنا ہوں گی۔
٭ ہمیں Targeted Welfare System کے ذریعے عوامی فلاح پر توجہ دینی ہوگی اور ایسی سبسڈیز کو کم سے کم کرنا پڑے گا جو Prices اور Efficiency میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔
٭ Broad-based Fair Taxation Regime کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے۔
جو سب کے لئے یکساں مواقع فراہم کرے اور Anti-Export Distortions کو ختم کرے۔
٭ توانائی کی قیمت کو کم کرنے کے لئے پاور سیکٹر میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ حکومت اپنی Home-grown Reforms کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے IMF کے ساتھ ایک Extended Fund Facility پر بات چیت کر رہی ہے۔ نئے پروگراموں میں Macroeconomic and Fiscal Stabilization ، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے، قرضوں کو sustainable بنانے، پاور سیکٹر اور SOEs میں اصلاحات کرنے کے ساتھ ساتھ گورننس اور Transparency کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ اس ضمن میں ہماری IMF کے ساتھ Staff Level Agreement کے سلسلہ میں بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔
جناب سپیکر!
14۔ بجٹ خسارے کو کم کرنا ایک اہم مقصد ہو گا۔ اس مقصد کے لئے ہم ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کے ذریعے اپنی آمدن کو بڑھائیں گے اور غیر ضروری اخراجات کو کم کریں گے لیکن یہ کمی کرتے وقت human development, social protection and climate resilience پر ہونے والے اخراجات کو ترجیح دیتے ہوئے ان میں کوئی کمی نہیں لائی جائے گی۔ ہمیں energy سیکٹر کو viable بنانے کے اقدامات کرنے ہیں۔ ان اقدامات میں پیداواری لاگت کو کم کرنا انتہائی اہم ہے۔ ہمیں SOEs کی تنظیم نو اور پرائیویٹائزیشن کرنی ہے اور good goverance اور level playing filed کے ذریعے پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینا ہے۔ ان سب اقدامات کا مقصد آمدن سے زائد اخراجات کے دائمی مسئلے کو حل کرنا ہے۔
جناب سپیکر!
15۔ میں حکومت کی اہم ترین ترجیح یعنی مہنگائی میں کمی پر بھی بات کرنا چاہوں گا۔ ایک سال قبل افراط زر اڑتیس (38) فیصد تک پہنچ گیا تھا جبکہ Food Inflation اڑتالیس (48) فیصد تک تھی۔ کم آمدن والے طبقے کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بہتر معاشی حکمت عملی کے نتیجے میں مہنگائی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ مئی 2024 میں Consumer Price Index گیارہ اعشاریہ آٹھ (11.8) فیصد تھا جبکہ Food Inflation صرف دو اعشاریہ دو (2.2) فیصد تھی۔ حکومت نے مہنگائی کو سنگل ڈیجٹ تک لانے کے لئے انتھک محنت کی ہے اور ہم ان کوششوں کو جاری رکھیں گے۔
16۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان Tax-to-GDP Ratio کے حوالے سے دوسرے ممالک سے کافی پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات ہماری معاشی کامیابیوں کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ FBR میں انتظامی اصلاحات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی واضح ہدایات ہیں کہ ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود لوگوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس نیٹ میں وسعت لائی جائے۔
17۔ ہم نے تاجر دوست سکیم متعارف کرائی ہے جس کا مقصد wholesalers, retailers اور dealers کو رجسٹر کرنا ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سکیم تیس ہزار چار سو (3400) رجسٹریشن کے ساتھ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آنے والے وقت میں FBR لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اپنی کوششوں کو تیز تر کرے گا۔ اس حوالے سے Existing Data کو موثر طور پر استعمال کیا جائے گا۔
جناب سپیکر!
18۔ وفاقی حکومت اکیلے مالیاتی استحکام کے ہدف کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اسی لئے وفاقی حکومت ملک کے مجموعی وسائل میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لئے صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ان کوششوں کو تقویت دینے کے لئے ہم تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ایک جامع National Fiscal Pact تجویز کرتے ہیں۔ ہم آہنگی اور یگانگت خود کفالت کے ہدف کو حاصل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ اس سلسلے میں ہماری صوبوں کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
جناب سپیکر!
19۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے، حکومتی اخراجات میں کمی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی حکمت عملی کا دوسرا اہم ستون ہے۔ ہم غیر ضروری اخراجات کو کم کر رہے ہیں۔ حکومت پنشن کے نظام میں اصلاحات لا رہی ہے جس کی تفصیلات میں اپنی تقریر کے اگلے حصے میں بیان کروں گا۔ بی پی ایس 1 سے 16 کی تمام خالی آسامیوں کو ختم کرنے کی تجویز زیر غور ہے جس سے 45 ارب روپے سالانہ کی بچت ہونے کا امکان ہے۔
20۔ وفاقی حکومت کے حجم کو کم کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے حکومتی ڈھانچے کا بغور جائزہ لے لیا ہے اور بہت جلد اپنی سفارشات کابینہ کو پیش کرے گی جبکہ وفاقی حکومت کی right sizing کے لئے تیاری کی جا رہی ہے۔ حکومت اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اسے بہترین تکنیکی عملہ اور مشاورت دستیاب رہے۔ اس مقصد کے لئے ہر ڈویژن کو Capacity Development and Technical Assistance کی مد میں الگ
رقوم مختص کرنے کی تجویز ہے۔
21۔ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کو تیز کرنے اور برآمدات کو بڑھانے کے لئے Regulatory Framwork کو آسان بنانا انتہائی اہم ہے۔ اس سلسلے میں BOI کے تحت Pakistan Regulatory Modernisation Initiative کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد حکومت کی ریگولیٹری فریم ورک کو آسان بنانا اور Automation کے ذریعے Business environment کو بہتر کرنا ہے تاکہ سرمایہ کاری، برآمدات اور معاشی ترقی کی رفتار کو بڑھایا جا
سکے۔
22۔ کسی بھی حکومت کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ Good and Services کی Procurements میں صرف ہوتا ہے۔ Procurement کے نظام میں آسانی اور شفافیت کے ذریعے حکومت کی کارکردگی میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ وسائل کی بچت بھی کی جا سکتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق E-Procurement سے سرکاری خرچ میں دس (10) سے بیس (20) فیصد تک کی کمی لائی جا سکتی ہے۔ یہ نظام حکومتی Procurements میں کرپشن، فراڈ اور بدنیتی جیسے مسائل پر قابو پانے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ یہ نظام سینتیس (37) وزارتوں جبکہ دو سو اناسی (279) Procuring Agencies میں نافذ ہو چکا ہے۔ اس کے تحت وفاقی حکومت میں چودہ (14) ارب روپے کی Procurement ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ Procuring Agencies کے آٹھ ہزار پانچ سو (8500) ملازمین کی تربیت مکمل کی جا چکی ہے اور دس ہزار پانچ سو پینتالیس (10,545) سپلائزر اس نظام میں رجسٹر ہو چکے ہیں۔ مزید برآں صوبائی حکومتوں اور مختلف وفاقی اداروں کے ساتھ E-Procurement کی Integration کے لئے Agreements کئے جا چکے ہیں۔
23۔ مجھے یقین ہے کہ اخراجات اور وصولیوں کے ضمن میں کوششیں وفاقی حکومت کیلئے وسائل کی فراہمی میں مددگار ثابت ہوں گی جس سے Human Resoure Development, Social Protection and Climate Resilience کیلئے وسائل دستیاب ہوں گے۔
جناب سپکر!
24۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومتوں کو کاروبار نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعظم Commercial Space میں حکومتی عمل دخل کو کم کرنے اور نجی شعبے کو فروغ دینے پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔اس لئے ہم نے نجکاری کو ایک کلیدی ترجیح بنایا ہے۔ ہم نہ صرف پی آئی اے، روز ویلٹ ہوٹل، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور فرسٹ ویمن بینک جیسے اداروں کی جاری نجکاری میں تیزی لائیں گے بلکہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کیلئے دیگر SOEs کو پیش کرنے کا ایک ٹھوس پروگرام بھی شروع کرنے جا رہے ہیں۔ آنے والے سالوں میں توانائی، مالیاتی اور صنعتی شعبوں میں SOEs کی ملکیت اور انتظام کی نجی شعبے کو منتقلی پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
25۔ اس ضمن میں PIA کی نجکاری کے حوالے سے تفصیلات بیان کرنا چاہوں گا۔ اس نجکاری کا آغاز نومبر 2023 میں Financial Advisor کی تعیناتی سے ہوا۔ فروری 2024 میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی موجودہ حکومت نے اس سلسلے کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ مارچ 2024 میں PIA ہولڈنگ کمپنی کی تشکیل کی گئی۔ جس کے بعد چھ سو بائیس (622) ارب روپے کی Liability کو PIA سے منتقل کیا گیا۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے Privatization Commission نے اپریل 2024 میں PIA کی نجکاری کے لئے قومی اور غیر ملکی اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے Expression of Interest کی دعوت دی۔ بارہ (12) کمپنیوں نے PIA کی نجکاری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ 3 جون کو Privatization Commission کے بورڈ نے چھ (6) کمپنیوں کو Pre-qualify کیا۔ اگست 2024 کے پہلے ہفتے میں سرمایہ کاروں کی جانب سے Bids منگوا لی جائیں گی جس
کے بعد یہ سلسلہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔
26 ۔ International Best practice کے مطابق حکومت ملک کے بڑے ہوائی اڈوں کو Outsource کررہی ہے۔ اس سے ایک طرف مسافروں کو بہتر سہولیات میسر آئیں گی اور دوسری جانب ہوائی اڈوں سے حاصل ہونیوالی آمدن میں اضافہ ہوگا اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو سب سے پہلے Outsource کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں International Competitive biding کے ذریعے پندرہ 15 جولائی 2024 تک بولیاں موصول ہوجائیں گی۔ لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کی Outsourcing process کا آغاز چند مہینوں کے بعد کیا جائے گا۔
جناب سپیکر!
27۔ وفاقی حکومت پر کھربوں روپے کی Unfunded pension liabilityہے۔ پنشن کے اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لہذا ان اخراجات میں اضافے کی شرح کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے اس شعبے کی اصلاح کے لئے Three Pronged strategy ترتیب دی ہے۔ جس میں کافی حد تک مشاورت مکمل ہوچکی ہے۔
1 ۔ International Best Practices کے مطابق موجودہ پنشن سکیم میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ ان کے نتیجے میں اگلی تین دہائیوں کی Pension Liability میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔
2 ۔ نئے ملازمین کے لئے Contributory pension scheme متعارف کرانا، جس میں حکومت کی Contribution ہرماہ ادا کی جائے گی ۔ اس سے مسقبل کے ملازمین کی پنشن ان کی ملازمت کے آغاز سے ہی Fully Fundedہوگی۔
3۔ پنشن کی Liabilitiy کو manage کرنے کیلئے پنشن فنڈ قائم کیا جائے گا۔
جناب سپیکر!
28 ۔ BISP ہمارے سماجی تحفظ کے اقدامات کے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جس کے تحت ملک بھرمیں لاکھوں خاندانوں کو ضروری نقد امداد فراہم کی جاتی ہے۔ موجودہ Coalition Govrnment کا عزم ہے کہ کمزور طبقے کی زیادہ سے زیادہ معاونت کی جائے ۔ مالی سال 2024-25 کے بجٹ کے ذریعے کمزور طبقوں کو BISP پروگرام کے ذریعے معاونت کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے لئے حکومت درج ذیل پیش رفت کے ساتھ، BISP کے لئے مختص رقم کو ستائیس27 فیصد اضافے کے ساتھ پانچ سو ترانوے (593) ارب روپے تک لے جائے گی:
٭ کفالت پروگرام کے تحت مستفید ہونے والے افراد کی موجودہ تعداد کو نواعشاریہ تین (9.3 ) ملین سے بڑھا کر دس (10) ملین کیا جائے گا۔ ان خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کیلئے کیش ٹرانسفر میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔
٭ تعلیمی وظائف پروگرام میں مزید دس (10) لاکھ بچوں کا اندراج کیا جائے گا، جس سے ان وظائف کی کل تعداد دس اعشاریہ چار (10.4) ملین ہوجائے گی ۔
٭ نشوونما پروگرام کا مقصد بچوں کی زندگی کے پہلے ایک ہزار (1000) دنوں کے دوران Stunting کو روکنا ہے، اگلے مالی سال کے دوران پانچ (5) لاکھ مزید خاندانوں کو اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔
29۔ economic inclusion کو فروغ دینے اور لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت BISP کے تحت پہلی مرتبہ poverty graduation and skills development پروگرام کا آغاز کرنے جارہی ہے۔ اس کے علاوہBISP کے ذریعے مالی خود مختاری کا ایک ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن پروگرام متعارف کرانے کے منصوبے کا بھی آغا ز کیا جارہا ہے۔
جناب سپیکر !
30۔ زراعت ہماری معیشت کا اہم ستون ہے، جس کا جی ڈی پی میں حصہ چوبیس (24) فیصد اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں حصہ سینتیس اعشاریہ چار (37.4) فیصد ہے۔ ملک کی فوڈ سیکورٹی اور صنعتی شعبے کی پیداواری صلاحیت اسی شعبے پر مختص ہے۔ زراعت، لائیوسٹاک اور ماہی پروری بھی قیمتی زرمبادلہ کمانے کے بڑے ذرائع ہیں۔ وزیراعظم جناب محمد شہبازشریف نے اکتوبر 2022 میں کسان پیکج کے تحت Markup and Risk Sharing Scheme for Farm Mechanization کا اعلان کیا تھا۔ اگلے سال اس سکیم کے لئے پانچ 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔ ان اقدام سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔ جس سے planters, tractors, threshers, harvesters and mobile grain dryers کیلئے فنانسنگ دستیاب ہوگی اور زرعی پیداوار صلاحیت بڑھانے اور Wastage کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
جناب سپیکر!
31۔ توانائی کا شعبہ گردشی قرضوں کے چیلنج سے دوچار ہے۔ یہ قرض اب ناقابل برداشت ہوچکا ہے ، پاور سیکٹر کی پیچیدگیوں کا حل بلاشبہ مشکل ہے کیونکہ بجلی پیدا کرنے سے لے کر Transmision and Distribution تک ہر سطح کی اپنی Dynamics ہیں اور ہر سطح پر مشکلات پائی جاتی ہیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت اس شعبے میں Course correctionاور ان مشکلات کو حل کرنے کیلئے کبھی اتنی پرعزم نہیں تھی۔ موجودہ مالی سال کے دوران بجلی کی تقسیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے گئے اور ان اقدامات کے نتیجے میں ہمیں امید ہے کہ سال کے اختتام تک circular Debt Stock میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ بجلی چوری کے خلاف مہم سے ہمیں پچاس50 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، اگلے سال کے لئے چند اصلاحات درج ذیل ہیں:
٭ نقصانات کو کم کرنے کیلئے Transmision and Distribution کارکردگی کو بہتر بنانا۔
٭ National Transmission and Dispatch companyکی تنظیم نو ۔ جس کی منظوری وزیراعظم پہلے ہی دے چکے ہیں۔
public sector power companies کی Management and Governanceکو بہتر بنانے کیلئے Board of managment میں private sector professionals شامل کئے جارہے ہیں۔
٭ نو (9) DISCOs اور GENCOsکی نجاری کو تیز کرنے کا منصوبہ ہے۔
٭ بجلی چوری کے خلاف مہم کو زیادہ منظم اور Institutionalize کیا جائے گا۔
32۔ توانائی کے شعبے کیلئے ترقیاتی بنک میں دو سو ترپن (253) ارب روپے کی خطیر رقم بجٹ کی گئی ہے، اس شعبے کے اہم منصوبوں میں Installation of assets performance managment system on distribution transformers کے لئے پینسٹھ (65) ارب روپے کی رقم تجویزکی گئی ہے۔ اسی طرح Electricity distribution efficiency کے منصوبے کے لئے پانچ ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ جامشورو میں بارہ سو (1200) میگاواٹ کول پاور پلانٹ کے لئے اکیس (21) ارب روپے اور NTDC کے سسٹمز میں بہتری کیلئے گیارہ (11) ارب روپے کی رقم تجویز کی گئی ہے۔
جناب سپیکر!
33 ۔ پانی کا شعبہ Food Security ، سستی بجلی کی پیداوار اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں آبی وسائل کے لیے دو سو چھ (206) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری پینے کے صاف پانی تک رسائی، زرعی پیداواری صلاحیت اور ہائیڈل پاور سے متعلقہ منصوبوں میں لگائی جائے گی۔ ان منصوبوں میں مہمند ڈیم، ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے لئے پینتالیس(45) ارب روپے، دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے چالیس(40) ارب روپے، چشمہ رائٹ بینک کنال Lift-cum-gravity projectکے لیے اٹھارہ(18) ارب روپے اور بلوچستان میں پٹ فیڈر کینال کی Re-modeling کے لئے دس (10) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔
جناب اسپیکر
34۔ آئندہ مالی سال میں وفاقی حکومت آئی ٹی سیکٹر پر خصوصی توجہ دے گی ۔ آئی ٹی سیکٹر میں Targeted Investment کے ذریعے کم مدت میں زیادہ منافع دینے کی صلاحیت ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی مہارت اور ہنر کسی سے کم نہیں، یہی وجہ ہے کہ حکومت کی ساز گار پالیسیوں کے نفاذ کے بعد اس سال آئی ٹی کی برآمدات ساڑھے تین(3.5) ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔
35۔ مالی سال2024-25 میں آئی ٹی سیکٹر کے لئے اناسی(79) ارب روپے سے زیادہ رقمتجویز کی جا رہی ہے جو کہ اس شعبے کے لیے اب تک کی سب سے زیادہ مختص رقم ہے۔ یہ رقم درج ذیل مقاصد کے لیے مختص کی جاری ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں Digitalization اور اصلاحات کے لیے سات(7) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ یہ رقم جدید ترین IT System کا استعمال کرتے ہوئے Tax Base کو بڑھانے اور نظام میں موجود Loopholes کودور کرنے کی حکومت کی کوششوں میں معاون ہو گی۔
٭ کراچی میں آئی ٹی پارک کی تشکیل کیلئے آٹھ (8) ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔
٭ ٹیکنالوجی پارک ڈویلپمنٹ پروجیکٹ اسلام آباد کیلئے گیارہ (11) ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔
٭ پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (PSEB) کیلئے گذشتہ سال کے ایک ارب روپے کے مقابلہ میں اس سال دو (2) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ یہ رقم آئی ٹی سیکٹر کے exporters کی حوصلہ افزائی اور آئی ٹی فرموں میں طلبا کی انٹرن شپ کے سلسلہ میں رکھی جا رہی ہے۔
٭ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر انفارمیشن کے اقدام کیلئے بیس (20) ارب روپے تجویز کئے جا رہے ہیں۔
36۔ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کی صلاحیت کو بروئے کار لانے کیلئے حکومت ایک نیشنل ڈیجیٹل کمیشن اور ایک ڈیجیٹل پاکستان اتھارٹی قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وقت کے ساتھ یہ ادارے مختلف شعبوں میں Digital transformation کو آگے بڑھانے، Innovations کو فروغ دینے اور Digital Solutions کو وسیع پیمانے پر اپنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان اداروں کے قیام کیلئے ایک (1) ارب روپے تجویز کئے جا رہے ہیں۔
جناب سپیکر!
37۔ human development میں سرمایہ کاری حکومت کی بہترین سرمایہ کاری ہے۔ حکومت بچوں کی تعلیم کیلئے سازگار ماحول کی فراہمی میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، اس سلسلہ میں کچھ اہم اقدامات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔اسلام آباد کے ایک سو سڑسٹھ (167) سرکاری سکولوں میں انفراسٹرکچر اور تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے کیلئے رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔
2۔نوجوان طلبا و طالبات کی جسمانی اور ذہنی نشوونما میں مدد کیلئے ہم School meal program متعارف کروا رہے ہیں جس کے تحت اسلام آباد کے دو سو (200) پرائمری سکولوں میں طلبا کو متوازن اور غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کیا جائے گا۔
3۔digital literacy کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم سکولوں کو Tablets and internet, chromebooks, Smart Screens facilities کی سہولیات سے آراستہ کر کے digital interventions and blended learning متعارف کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مزید برآں پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں قائم کی جائیں گی۔
4۔اسلام آباد کے سولہ (16) ڈگری کالجوں کو NUST، NSU،NUML اور COMSATS جیسی مشہور یونیورسٹیوں کے تعاون سے اعلی نتائج کے حامل تربیتی اداروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ یہ ادارے ہمارے نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع بڑھانے کیلئے چھ (6) ماہ کے آئی ٹی کورسز آفر کریں گے۔
5۔پسماندہ اور غریب طلبہ کو معیاری تعلیم تک رسائی فراہم کرنے کیلئے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم طلبہ کیلئے ایک ایجوکیشن وائوچر سکیم متعارف کرائی جا رہی ہے۔
6۔سو (100) سکولوں میں early childhood education کے مراکز قائم کئے جائیں گے تاکہ چھوٹے بچوں کو تعلیم کا ایک مضبوط آغاز فراہم کیا جا سکے۔
7۔دیہی سے شہری علاقوں تک طالبات کے سفر کیلئے pink buses متعارف کرائی جا رہی ہیں۔
8۔وزیراعظم کی ہدایت پر دانش سکولوں کے پروگرام کو اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان تک پھیلایا جا رہا ہے۔
جناب سپیکر!
38۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی ہمارے معاشی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی جانب سے بھیجی جانے والی remittances معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، حکومت بیرون ملک مقیم اہل وطن کی مدد کیلئے متعدد سہولیات فراہم کروا رہی ہے:
1۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی Remittences کے فروغ کیلئے بجٹ میں چھیاسی اعشاریہ نو (86.9) ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے، یہ رقم Re-imbusrment of TT Charges، سوہنی دھرتی سکیم اور دیگر سکیموں کیلئے استعمال کی جائے گی۔
2۔افرادی قوت کو مارکیٹ کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق تیار کرنے کیلئے Centers of Excellence قائم کیے جائیں گے۔
3۔بیرون ملک مقیم اہل وطن کی سہولت کیلئے imigration landscap کو digitize کیا جائے گا تاکہ imigration کے procedure کو آسان بنایا جا سکے اور لاگت میں کمی ہو۔
4۔شکایات کے بروقت ازالے کیلئے Complaint Resolution کا موثر نظام بنایا جائے گا، اس کیلئے ایک بین الاقوامی کال سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
5۔نئے imigrants کیلئے جلد از جلد بیرون ملک آباد کاری کیلئے قرض کی سہولیات فراہم کرنے پر کام جاری ہے۔
6۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی غیر معمولی خدمات کو تسلیم کرنے کیلئے محسن پاکستان ایوراڈ متعارف کرایا جا رہا ہے۔
39۔ اسی طرح کے دیگر اقدامات سمندر پار پاکستانیوں کی معاونت اور قومی ترقی میں ان کے تعاون سے فائدہ اٹھانے کیلئے حکومت کے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
جناب سپیکر!
40۔ ماضی میں برآمدات کو فروغ دینے کی کوششوں کے باوجود برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہو سکا، اس شعبہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے EXIM Bank کے ذریعہ Export refinance scheme کیلئے مختص رقم کو تین اعشاریہ آٹھ (3.8) ارب روپے سے بڑھا کر تیرہ اعشاریہ آٹھ (13.8) ارب روپے کرنے کی تجویز ہے۔ ان اقدامات سے portfolio میں ایک سو (100) ارب روپے سے دو سو اسی (280) ارب روپے تک کا اضافہ متوقع ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعہ پانچ سو انتالیس (539) ارب روپے کے ایکسپورٹ کریڈٹ کی فراہمی کی جائے گی۔ وزیراعظم نے اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے کہ اس سہولت کا کم از کم بیس (20) فیصد SME سیکٹر پر مرکوز رہنا چاہئے۔ حکومت کی SME Strategy کے تحت SMEs کے Credit کو پانچ سو چالیس (540) ارب روپے سے بڑھا کر گیارہ سو (1100) ارب روپے کیا جائے گا جس میں سے ایک سو (100) ارب روپے کا اضافہ اگلے مالی سال کے دوران کیا جائے گا۔ مستقبل میں یہ قدم پاکستان کے برآمدی شعبہ کو ایک اہم لائف لائن فراہم کرے گا۔ مزید برآں حکومت طویل عرصہ سے زیر التوا DLTL کلیمز کی مرحلہ وار ادائیگی کرے گی، ایکسپورٹرز کی مدد کیلئے رسک شیئرنگ سکیم بھی وضع کی جا رہی ہے۔
جناب سپیکر!
41۔ بیرونی سرمایہ کاری ہماری ادائیگیوں کے توازن اور پاکستان کی ساکھ میں اضافہ کیلئے اہم ہے، اس سلسلہ میں بردار اور دوست ممالک کے ساتھ بات چیت اور کوششیں ایک advance stage پر ہیں، یہاں میں SIFC کے کردار کو ضرور تسلیم کرنا چاہوں گا جو کہ GCC ممالک سے زراعت، لائیو سٹاک، کان کنی اور سیاحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کو لانے کے عمل کی قیادت کررہی ہے۔
42۔ میں اس سلسلہ میں وزیراعظم پاکستان کے چین کے دورہ کا ذکر کرنا ہو گا، اس دورے کا مقصد CPEC (Phase-II) کو Rejuvanate کرنا تھا۔ CPEC کے اس فیز میں چینی کمپنیوں کو Special Economic Zone کے ذریعہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستانی کمپنیاں چینی کمپنیوں کے ساتھ Joint Ventures
کر سکیں گی۔ (Phase-II) CPEC سے ملک میں صنعتی شعبے اور برآمدات میں اضافے کا ایک نیا باب کھلے گا۔
43۔ دورہ چین کے لیے وزیراعظم کے وفد میں پاکستان کی ستانوے (97) اہم کمپنیوں کے نمائندے شامل تھے اس سلسلے میں چین کے شہر Shenzhen میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ توانائی ،کلچر، آئی ٹی، فارماسیوٹیکلز، زراعت اور فوڈ سیکٹر سے متعلق اکتیس (31) B2B ایم اویوز سائن کیے گئے۔ ساتھ ہی کئی پاکستانی اور چینی کمپنیوں کے درمیان مزید ایم او یوز پر گفتگو شنید جاری ہے۔ ان کا تعلق Iron and Steel, Mobile Solar Cells and Automobiles, Manufacturing اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں سے ہے۔ ساتھ ہی ساتھ BOI نے چھ (6) مختلف چینی اداروں کے ساتھ B2B Collaboration کے لیے ایم او یوز سائن کیے ہیں۔
جناب سپیکر!
44۔ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا شدید خطرہ لاحق ہے، اور Climate matigation کی کوششوں کو تقویت دینے کیلئے حکومت متعدد اقدامات پر کام کر رہی ہے، جن میں سے چند ایک کا ذکر کرنا ضروری ہے:
1۔climate matigation and adaptation کے اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے pakistan Climate Change Authority کو فعال بنایا جا رہا ہے۔
2۔National Climate Finance Strategy اکتوبر 2024 تک تیار کر لی جائے گی، جس کا مقصد Global Clmate Finance کو پاکستان میں لانا ہے۔ جس سے Carbon Emission میں کمی لانے کے منصوبوں پر عمل کیا جا سکے۔
3۔National digital climate finance monitoring dashboard قائم کیا جائے گا جوکہ climate finance کے حوالے سے ملنے والی بیرونی امداد کے بارے میں Data maintain کرے گا۔
4۔حکومت کے Budgeting and Accounting system میں Gender and Climate Budget tagging کر دی گئی ہے۔ جس سے ان سیکٹر کے حوالے سے پالیسی سازی اور عملدرآمد میں مدد ملے گی۔
5۔حکومت E-Bikes کیلئے چار (4) ارب روپے اور توانائی کی بچت کرنے والے پنکھوں کیلئے دو (2) ارب روپے
مختص کر رہی ہے۔
45۔ اب میں مالی سال 2004-25 کے بجٹ کے اہم خدوخال پیش کرتا ہوں:
46۔ مالی سال 2024-25 کے لیے اقتصادی ترقی کی شرح تین اعشاریہ چھ (3.6) فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح بارہ (12) فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا چھ اعشاریہ نو(6.9) فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا ایک (1.0) فیصد ہوگا۔
٭ ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ بارہ ہزار نو سو ستر (12,970) ارب روپے ہے جوکہ رواں مالی سال سے اڑتیس (38) فیصد زیادہ ہے۔ چنانچہ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ سات ہزار چار سو اڑتیس (7,438) ارب روپے ہوگا۔
٭ وفاقی نان ٹیکس ریونیو کا ہدف تین ہزار پانچ سو ستاسی (3,587) ارب روپے ہوگا۔
٭ وفاقی حکومت کی خالص آمدنی نو ہزار ایک سو انیس (9,119 ) ارب روپے ہوگی۔
٭ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ اٹھارہ ہزار آٹھ سو ستتر (18,877)ارب روپے ہے، جس میں سے نو ہزار سات سو پچھتر (9,775) ارب روپے انٹرسٹ کی ادائیگی کی جائے گی۔
٭ PSDP کے لیے ایک ہزار چار سو (1400) ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے ایک سو (100) ارب روپے اضافی مختص کیے گئے ہیں۔ مجموعی ترقیاتی بجٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر یعنی ایک ہزار پانچ سو (1500) ارب روپے ہوگا۔
٭ دو ہزار ایک سو بائیس (2,122) ارب روپے دفاعی ضروریات کیلئے فراہم کیے جائیں گے اور سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے آٹھ سو انتالیس (839) ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار چودہ (1,014) ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار تین سو تریسٹھ (1,363) ارب روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔
٭ ایک ہزار سات سو ستتر (1,777) ارب روپے پر مشتمل کل گرانٹس بنیادی طور پر BISP، AJK، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع، HEC، ریلوے، ترسیلات زر اور آئی ٹی (IT) کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے مختص کی گئی ہیں۔
جناب سپیکر!
47۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام ملک کو ترقی، خوشحالی اور سماجی فلاح کی طرف گامزن کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ جدت، بنیادی ڈھانچے کی توسیع اور پائیدار ترقی کے لیے Catalyst کا کام کرتا ہے۔
48۔ حکومت نے 2024-25 کے لیے تاریخ میں سب سے بڑا فیڈرل پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) وضع کیا ہے جس کا حجم ایک ہزار پانچ سو (1,500) ارب روپے ہے۔ جو پچھلے سال کے نظرثانی شدہ حجم سے ایک سو ایک (101) فیصد زیادہ ہے۔ پندرہ سو (1500) ارب میں PPP projects کے لیے ایک سو (100) ارب روپے شامل ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں، ترقیاتی بجٹ کا یہ حجم انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور transportation ، توانائی، آئی ٹی اور آبی وسائل کے انتظام میں اہم چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم اور اخلاص کا مظہر ہے تاکہ معاشی ترقی میں سہارا ملے اور اہل وطن کے معیار زندگی میں بہتری آئے۔
49۔ PSDP 2024-25 ، جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے اور تقریبا تراسی (83) فیصد وسائل جاری منصوبوں کے لیے جبکہ صرف سترہ (17) فیصد وسائل نئے منصوبوں کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ بنیادی انفراسٹرکچر کا شعبہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مالی سال 2024-25 کی PSDP میں اس شعبے کے لیے انسٹھ (59) فیصد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ سماجی شعبے کے لیے ترقیاتی بجٹ کا بیس (20)فیصد رکھنے کی تجویز ہے، ملک میں متوازن علاقائی ترقی کو یقینی بنانا ایک آئینی ذمہ داری ہے۔ اس لیے آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے دس (10) فیصد وسائل مختص کیے گئے ہیں۔ تقریبا گیارہ اعشاریہ دو (11.2) فیصد وسائل دیگر شعبوں جیسے آئی ٹی اور ٹیلی کام، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، گورننس اور پروڈکشن سیکٹر وغیرہ کے لیے مختص ہیں۔
50۔ پی ایس ڈی پی 2024-25 کے لیے National Economic Council (NEC) کی طرف سے منظور کردہ گائیڈ لائن کے مطابق درج ذیل معیار پر اترنے والے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی:
(a) Strategic and Core projects جن میں آبی وسائل، ٹرانسپورٹیشن، مواصلات اور توانائی کے شعبوں کی طرف سے خاص توجہ دی جائے گی۔
(b) غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے، تاکہ ان کی تکمیل مقررہ وقت پر ہو سکے اور
(c) تمام شعبوں میں ایسے منصوبے جن پر خرچہ اسی (80 فیصد) فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے اور جنہیں مالی سال 2024-25 کے دوران مکمل کیا جا سکتا ہے اور معیشت کو بروقت مالی اور اقتصادی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
51۔ برآمدات کو سپورٹ کرنے، پیداواری صلاحت میں اضافے، competiveness کو فروغ دینے، Digital Infrastructure کو پھیلانے، innovation driven enterprises، صنعتی ترقی، ایگرو انڈسٹری (Agro Industry) اور seed development، بلیو اکانومی، سائنس اور ٹیکنالوجی، Research and Development اور Innovativeاصلاحات پر توجہ مرکوز کرنے والے نئے منصوبوں کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ متوازن ترقی اور equity regional اور پائیدار ترقی کے اقدامات کو بھی پی ایس ڈی پی 2024-25 میں شامل کیا گیا ہے۔
52۔
اقتصادی ترقی کے سلسلے میں ہم نجی شعبے کے اہم کردار کو ترقی کے بنیادی محرک کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور viability gap arrangements کے ذریعے نجی شعبے کی کوششوں میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان تعاون نہ صرف دونوں شعبوں کی طاقت میں اضافہ کرتا ہے بلکہ پائیدار اور جامع ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے یہ تعاون انتہائی ضروری ہے۔
53۔ ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں Highways کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے، بڑے شہروں اور علاقوں کے درمیان رابطے بڑھانے، اور ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حجم کو سنبھالنے کے لیے موجودہ انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ مزید برآں، ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد ملک کے توانائی کے انفراسٹرکچر کو وسعت دینا اور جدید بنانا ہے، جن میں ہائیڈرو پاور ڈیم کی تعمیر، سولر پاور پلانٹس کی تنصیب اور ٹرانسمیشن لائنیں بچھانا شامل ہیں تا کہ بجلی کیefficient distribution کو یقینی بنایا جا سکے اور توانائی کی
بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔
54۔ مزید یہ کہ Flood reduction اور زرعی اور گھریلو استعمال کیلئے پانی کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنانے
کیلئے ڈیموں، آبپاشی کے نظام اور نکاسی آب کے نیٹ ورکس کی تعمیر کے ذریعے water resource managementپر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ یہ منصوبے infrastructure کو ترقی دینے اور ٹرانسپورٹیشن ، توانائی اور آبی وسائل کے انتظام میں در پیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں تاکہ اقتصادی ترقی میں مدد ملے اور شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
55۔ اگلے مالی سال کی PSDP میں انفراسٹرکچر کی فراہمی کیلئے آٹھ سو چوبیس (824) ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز ہے جس میں سے انرجی سیکٹر کیلئے دو سو ترپن (253) ارب روپے،ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن سیکٹر کیلئے دو سو اناسی (279) ارب روپے، واٹر سیکٹر کیلئے دو سو چھ (206) ارب روپے جبکہ پلاننگ اور ہائوسنگ کیلئے چھیاسی (86) ارب روپے شامل ہیں۔ سماجی شعبے کیلئے رواں سال میں دو سو چوالیس(244) ارب روپے کے مقابلے میں دوسو اسی(280) ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ خصوصی علاقے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان)کیلئے پچہتر(75) ارب روپے ، خیبر پختونخوا کے ضم ہونے والے علاقوں کیلئے چونسٹھ (64) ارب روپے اور سائنس اور آئی ٹی کیلئے اناسی (79) ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اسی طرح پروڈکشن سیکٹر بشمول زراعت کیلئے پچاس (50) ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔
56۔ PSDP-2024-25 میں Skills Development پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے تاکہ ہمارے ملک کے نوجوان جدید Knowledge اور ٹریننگ حاصل کر کے روزگار حاصل کر سکیں اورملک کی ترقی میں بھر پور کردار ادا کر سکیں۔
57۔ کراچی نہ صرف ملک کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ ملک کی اقتصادی ترقی میں کراچی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تمام Stakeholders کی مشاورت سے کراچی کے انفراسٹرکچر کو جدت کی طرف لے جایا جائے۔ اس کیلئے ایک جامع کراچی پیکیج کی تجویز ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ حیدر آباد ، میر پور خاص، سکھر اور بے نظیر آباد کیلئے بھی منصوبے مرتب کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح کراچی کو پانی کی سپلائی بہتر بنانے کیلئے K-4منصوبے کیلئے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے تا کہ اس اہم منصوبے کو تکمیل کی طرف لے جایا جائے۔
58۔ وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر اسلام آباد کے ہسپتالوں کو Modernize کرنے کیلئے ایک جامع پلان مرتب کیا جائے گا تاکہ اسلام آباد، راولپنڈی، آزاد کشمیر ، خیبر پختونخوا اور گردونواح کے علاقوں کی عوام کو علاج معالجہ کی جدید سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ خاص طور پر Pakistan Institute of Medical Sciencesمیں Quaid-e-Azam Health Tower کے نام سے ایک نیا منصوبہ شروع کرنے کی تجویز ہے۔ جس کیلئے ایک خطیر رقم رکھنے کی تجویز ہے۔
جناب سپیکر !
59۔ اس سال کی ٹیکس پالیسی کے اہم اصول یہ ہیں
(i)۔Tax Base وسیع کر کے ٹیکس ٹو جی ڈی پی Ratio میں اضافہ کرنا۔
(ii)۔Un-Documented Economyکو ختم کرنے کے لئے معیشت کیDigitization۔
(iii)۔ Progressiveٹیکس سسٹم کے تحت زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ۔
(iv)۔ نان فائلرز کے لئے کاروباری Transactions کے ٹیکس میں نمایاں اضافہ۔
(v)۔ افراط زر کی وجہ سے کم آمدن والے طبقات کے لئے تحفظ ۔
جناب سپیکر!
60۔ حکومت عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ روزگار کے مواقع بڑھیں ٹیکس دہندگان اور Documented Sectorsکیلئے کاروبار کو آسان بنایا جائے اور صنعتوں اور برآمدات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تاکہ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جاسکیں ۔
جناب سپیکر!
61۔ اب میں انکم ٹیکس کے ان چند اہم اقدامات کی تفصیل پیش کرتا ہوں جو محصولات کے حوالے سے اٹھائے جانے کی تجاویز ہیں:
1۔ Personal انکم ٹیکس اصلاحات :
ایف بی آر نے 2019 سے 2023 تک Corporate انکم ٹیکس اصلاحات نافذ کیں۔ اب Personal انکم ٹیکس اصلاحات لاگو کرنے کی ضرورت ہے تا کہ Personal انکم ٹیکس کی شرح کو بین الاقوامی معیار کے مطابق کیا جا سکے۔ اس ضمن میں انکم ٹیکس چھوٹ چھ (6) لاکھ روپے تک کی آمدن پر برقرار رکھنے کی تجویز ہے اور یہ بھی تجویز ہے کہ تنخواہ دار طبقے میں maximum tax slab میںاضافہ نہ کیا جائے۔ جبکہ ٹیکس Slabs میں کچھ رد و بدل تجویز کیا جا رہا ہے۔ تاہم Non-Salariedافراد کے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح پینتالیس (45) فیصد رکھنے کی تجویز ہے۔
2۔برآمدات کے لئے نارمل ٹیکس کا نظام:
اس وقت Exporters کی آمدن پر مجموعی وصولیوں کے ایک فیصد کی شرح سے فائنل ٹیکس عائد کیا جاتا ہے۔ Exports ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم Exporters کو ہر ممکن سہولت فراہم کریں گے اور ان کے مسائل بشمول Sales Tax Refunds میں Delays ، توانائی کے شعبے کے مسائل وغیرہ کا تدارک کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر طبقہ اپنی آمدن کے مطابق ملک کی پائیدار ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔ Horizontal Equityکے اصول کے مطابق exporters پر Normal ٹیکس regimeعائد کرنے کی تجویز ہے ۔
3۔ Real Estate پر Capital Gainsٹیکس میں ترمیم:
موجودہ قانون میں Immovable Propertiesکے Capital Gainsپر فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لئے Holding کی مدت کی بنیاد پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ ہولڈنگ کی مدت سے قطع نظر پندرہ (15) فیصد کی شرح سے ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔ جبکہ نان فائلرز کے ٹیکس ریٹ مختلف Slabs کے تحت پینتالیس (45) فیصد تک کرنے کی تجویز ہے۔ اس قدم سے معیشت کو Document کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی طرح ہائوسنگ سیکٹر سے Speculation کا خاتمہ ہوگا اور عوام کو Affordable housing کی فراہمی میں مدد ملے گی۔
4۔Securitiesپر Capital Gains taxکا نیا نظام:
موجودہ قانون میں فائلرز اور نان فائلرز دونوں کے لئے ہولڈنگ کی مدت کی بنیاد پرSecuritiesپر Capital Gains Taxلگایا جاتا ہے۔ Capital Gainsپر ٹیکس نظام کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یکم جولائی 2024 کے بعد ہولڈنگ کی مدت سے قطع نظر فائلرز کیلئے پندرہ(15) فیصد جبکہ نان فائلرز کیلئے مختلف Slabs کے تحت ٹیکس کی شرح پینتالیس (45) فیصد تک کرنے کی تجویز ہے۔
5۔ پاکستان میں Immovable Propertiesکی منتقلی پر مجوزہ Progressive withholding Tax
اس وقت فائلرز کے لئے Immovable Properties خرید نے پر فلیٹ تین (3) فیصد اور نان فائلرز پر چھ (6) فیصد ٹیکس عائد ہے۔ ایسے لوگ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی آخری تاریخ پر کبھی ریٹرن فائل نہیں کرتے بلکہ جائیداد کی خریداری کے وقت ٹرانزیکشن کرنے سے پہلے ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ مقررہ تاریخ تک ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کو یقینی بنانے اور نان فائلرز اور تاخیر سے ریٹرن فائل کرنے والوں کے لئے کاروبار کی لاگت بڑھانے کی غرض سے یہ تجویز کیا جا رہا ہے کہ فائلرز، نان فائلرز اور تاخیر سے ریٹرن جمع کرانے والوں کے لئے تین الگ الگ Rates متعارف کرائے جائیں۔ اس حوالے سے ان تینوں Categories کے لیے ٹیکس کی شرح میں رد و بدل تجویز کیا جا رہا ہے۔ اس مجوزہ قدم کا مقصد Non Filers پر ٹیکس کا بوجھ بڑھانا او زیادہ ریونیوGenerateکرنا ہے۔
6۔ Supply Chainمیں تاجروں، Wholesalersاور Retailersپر Scope of Taxکو بڑھانا۔
اس وقت صرف مخصوص کاروباری شعبوں کے Dealers Wholesalers, Distributersاور Retailers سے ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تاجروں کو Document کرنے اور نان فائلنگ کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ تمام کاروباروں کی پوری SupplyChain کے لئے ایڈوانس ٹیکس وصولی کے Scope کو بڑھایا جائے۔ Non-filers سےAdvance withholding tax کی شرح ایک (1) فیصد سے بڑھا کر دو اعشاریہ پچیس (2.25)
7۔موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی Engine Capacityکے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر تبدیل کرنا۔
موجودہ قانون کے تحت دوہزار (2000) سی سی تک کی گاڑیوں کی خریداری اور رجسٹریشن پر ایڈوانس ٹیکس کی وصولی Engine Capacity کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ گاڑیوں کی قیمتوں میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اس لیے ٹیکس کی اصل Potential سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ تجویز دی جارہی ہے کہ تمام موٹر گاڑیوں کے لیے ٹیکس وصولی کی بنیاد Engine Capacity سے تبدیل کر کے قیمت کے تناسب پر کردیا جائے۔
جناب سپیکر !
62۔ اب میں سیلز ٹیکس سے متعلق چند اہم تجاویز پیش کرتا ہوں ۔
1۔ زیروریٹنگ ،Exemptions اور Reduced ریٹس کی چھوٹ کا خاتمہ ۔ حکومت پاکستان ٹیکس قوانین میں مساوات اور انصاف کے اصولوں پر کاربند ہے ۔ اس چیز پر بار بار زور دیا گیا ہے کہ ٹیکس قوانین میں متعدد Exemptions دی گئی ہیں جو کہ نہ صرف حکومت کی آمدنی کو کم کرتی ہیں بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ چنانچہ ہم نے سیلز ٹیکس میں دی گئی مختلف Exemptions اور Concessions کا جائزہ لیا ہے اور ایسی بہت سی اشیا کی نشاندہی کی ہے جن پر سے Exemptions اور Concessionsکو ختم کرنے کی تجویز ہے ۔ ان میں سے کچھ کو Reduced rate جبکہ بقایا کو Standard ریٹ پر ٹیکس کیا جائیگا۔ ان کی تفصیلات فنانس بل میںدی گئی ہیں۔
2۔ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے TIER-1 Retailersپر GST ریٹ میں اضافہ ۔
تجویز ہے کہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے TIER-1 Retailers پر لاگو سیلز ٹیکس کے ریٹ کو پندرہ (15) فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ (18) فیصد کر دیا جائے ۔ یہ ٹیکس بنیادی طور پر ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مہنگی اور brandedمصنوعات پر لاگو ہو گا۔ یہ ٹیکس اس طبقے پر لاگو کیا جارہاہے جو یہ مہنگی اشیا خریدنے کی استطاعت رکھتا ہے۔ اس سے عام شہری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
3۔ موبائل فونز کو اٹھارہ (18) فیصد standard rateپر ٹیکس کرنے کی تجویز
Concessionary Rates مارکیٹ میں چند مخصوص اشیا کو فائدہ پہنچاتے ہوئے Distortions پیدا کرتے ہیں جبکہ standard rateاس بات کو یقینی بناتا ہے کہ سب کو یکساں مواقع میسر ہوں۔ اور مارکیٹ فورسز موثر طریقے سے کام کر سکیں۔ مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر تجویز ہے کہ موبائل فونز کی مختلف Categories پر سیلز ٹیکس کا standard rateلاگو کیا جائے ۔
4۔ تانبے، کوئلہ اور کاغذ اور پلاسٹک کے سکریپ وغیرہ پر سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ کا اطلاق
اس وقت تانبے ، کوئلے ، کاغذ اور پلاسٹک کے سکریپ سے متعلق سیکٹرز غیر منظم ہیں اور قومی خزانے میں ان کا contribution نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سیکٹرز میں Taxesکی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے تجویز ہے کہ سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ Regime نافذ کی جائے ۔
جناب سپیکر !
63۔ اب میں کچھ Streamliningاقدامات کی طرف آتا ہوں ۔
1۔ آئرن اور سٹیل سکریپ پر Exemption کا اطلاق
تجویز ہے کہ آئرن اور سٹیل سکریپ کو سیلز ٹیکس سے چھوٹ دے دی جائے ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ رجسٹرڈ persons مارکیٹ سے بغیر سیلز ٹیکس چارج کئے سکریپ خریدتے ہیں۔ چنانچہ ان کے پاس input tax نہیں ہوتا جس کے مطابق وہ output tax ایڈجسٹ کر سکیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے fake/flying invoicesبنائی جاتی ہیں ۔ اس رحجان کے خاتمے کے لیے تجویز ہے کہ آئرن اور سٹیل سکریپ کو سیلز ٹیکس کی چھوٹ دے کر Fake/ Flying Invoices کے رحجان کو ختم کیا جائے۔
2۔ Newly Merged Distriets (فاٹا/پاٹا) کو دی گئی چھوٹ کا بتدریج خاتمہ
2018میں فاٹا اور پاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد ان علاقوں کو پانچ (5) سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی گئی تھی ۔ یہ چھوٹ 30جون 2023کو ختم ہو گئی تھی اور اس میں ایک سال کا اضافہ کیا گیا تھا۔ ان علاقوں کو دی گئی چھوٹ بتدریج ختم کی جارہی ہے تاکہ ان کو قومی معاشی دھارے میں لایا جاسکے ۔ مزید برآں فاٹا پاٹا کے رہائشیوں کو انکم ٹیکس سے چھوٹ ایک سال کے لیے بڑھائی جارہی ہے۔
3۔ڈیفالٹ سرچارج ریٹ کو پالیسی ریٹ سے ہم آہنگ کرنے کی تجویز
اس وقت unpaid سیلز ٹیکس اور FFDپر بارہ (12) فیصد سالانہ کا فکس ریٹ لاگو ہے ۔
تجویز ہے کہ اس کو بڑھا کر KIBOR+3%کر دیا جائے تاکہ یہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے پالیسی ریٹس سے ہم آہنگ ہو جائے ۔
فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی
64۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے متعلق چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں ۔
1۔ جعلی سیگریٹ بیچنے کی سزا
مارکیٹ میں جعلی سگریٹوں کی دستیابی حکومت اور صحت عامہ کے اداروں کے لیے باعث تشویش ہے ۔Track & Trace System کو متعارف کروانے کے باوجود تمباکو کی smuggled ، جعلی اور Non-Taxpaidمصنوعات کی مارکیٹ میں دستیابی ایک مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے tax stampsکے بغیر سگریٹ بیچنے والے ریٹیلرز پر سخت سزائوں کے اطلاق کی تجویز ہے ۔ جس میں ان کی دکانوں کو Sealکرنے کی تجویز شامل ہے۔
2۔ ACETATE TOW پر FEDکا اطلاق
Acetate towسگریٹ فلٹر کی پیداوار میں استعمال ہونے والا بنیادی عنصر ہے ۔ تجویز ہے کہ Acetate tow پر چوالیس ہزار (44000) روپے فی کلو FEDعائد کی جائے ۔ اس تجویز سے Formal سیکٹر پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا جبکہ Informal Sector یہ FFDاضافی دے گا ۔
3۔ سیمنٹ پر FEDریٹ میں اضافہ
اس وقت سیمنٹ پر دو (2) روپے فی کلو FED عائد ہے ۔ تجویز ہے کہ اس کو بڑھا کر 3روپے فی کلو کر دیا جائے ۔
4۔ غیر منقولہ جائیداد پر FEDکا اطلاق
رئیل اسیٹ میں استحکام لانے اور speculationکو روکنے کے لیے نئے پلاٹوں، رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر پانچ (5) فیصد FED عائد کرنے کی تجویز ہے ۔
کسٹمز
جناب سپیکر !
65۔ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں مندرجہ ذیل اہم تجاویز دی جارہی ہے ۔
1۔ Acquacultureکے فروغ کے لیے درآمدات پر رعایت ۔
aquaculture کی ترقی کے لیے جھینگوں اور مچھلیوں کی فارمنگ کو فروغ دینے کی غرض سے اور فوڈ سکیورٹی اور برآمدات میں اضافے کے مقاصد کے پیش نظر مچھلیوں اور جھینگوں کی افزائش نسل کے لیے منگوائے جانے والے seedاور feed کی درآمد کے ساتھ ساتھ فارمنگ ، بریڈنگ، فیڈمل اور پراسسینگ یونٹس کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں ۔
2۔ Solar Panel Industryکے فروغ کے لیے درآمدا پر رعایت
برآمد کرنے اور مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے سولر پینلز تیار کرنے کی غرض سے پلانٹ ، مشینری اور اس کیساتھ منسلک آلات اور سولر پینلز ، انورٹرز (Inverters) اور بیٹریوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایتیں دی جارہی ہیں تاکہ درآمد شدہ سولر پینلز پر انحصار کم کیا جاسکے اور قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے ۔
3۔ Hybrid گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی پر چھوٹ کا خاتمہ ۔
نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ہائی برڈ (Hybrid) اور عام گاڑیوں کے درمیان قیمتوں میں بہت زیادہ فرق کی وجہ سے ہائی برڈ (Hybrid ) گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں 2013 میں رعایت دی گئی تھی ۔ اس وقت د ونوں قسم کی گاڑیوں کی قیمتوں کے درمیان فرق کم ہو چکا ہے اور مقامی طور پر Hybrid گاڑیوں کی تیاری شروع ہو چکی ہے ۔ اس لیے مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیے یہ رعایت اب واپس لی جارہی ہے۔
رعایت اب واپس لی جا رہی ہے۔
4۔Luxury الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت کا خاتمہ:
Luxury الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت واپس لی جا رہی ہے کیونکہ پچاس ہزار (50,000) ڈالر اور اس سے زائد قیمت کی گاڑیاں درآمد کرنے کی استطاعت رکھنے والے لوگ واجب الادا ٹیکس اور ڈیوٹیز بھی ادا کر سکتے ہیں۔
5۔شیشے کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی پر چھوٹ کا خاتمہ:
گزشتہ چند برسوں میں مقامی طور پر تیار کردہ شیشے کی برآمد میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ مقامی صنعت کی حوصلہ افزائی اور مدد کے لیے شیشے کی مصنوعات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹیز میں دی جانے والی رعایتوں پر چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔
6۔سٹیل اور کاغذ کی مصنوعات پر درآمدی ڈیوٹی میں اضافہ:
سٹیل اور کاغذ کی مصنوعات ball bearings وغیرہ کی مقامی تیاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ان تمام اشیا کی درآمد پر ڈیوٹیز بڑھائی جا رہی ہیں۔
ریلیف اقدامات
جناب سپیکر!
66۔ مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوئی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ اس سے خاص طور پر متاثر ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اپنی مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کے لئے ریلیف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ 1 سے 16 گریڈ کے سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لئے تنخواہوں میں پچیس (25) فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ 17 سے 22 گریڈ کے افسران کی تنخواہوں میں بیس (20) فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں پندرہ (15) فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اسی طرح کم سے کم ماہانہ تنخواہ بتیس ہزار (32,000) روپے سے بڑھا کر سینتیس ہزار (37,000) روپے کرنے کی تجویز ہے۔
اختتامی کلمات
جناب سپیکر!
67۔ آخر میں، میں وزیراعظم، نائب وزیراعظم، کابینہ کے ساتھیوں، وزیر مملکت برائے خزانہ اور دونوں ایوانوں کے اراکین کی حمایت اور مشورے کے لیے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ میں فنانس ڈویژن، ایف بی آر اور پلاننگ ڈویژن کی انتھک محنت کا بھی تہہ دل سے مشکور ہوں۔ ہم اپنے ملک اور اس کے عوام کی ترقی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور اللہ کی مدد سے پاکستان کو اقوام عالم میں اس کے جائز اور مستحق مقام تک پہنچائیں گے۔
68۔ آخر میں، میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری اقتصادی بحالی اس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک کہ قومی اتفاق رائے نہ ہو۔ معاشی کامیابیاں حاصل کرنے والے ملکوں نے اپنی معاشی اصلاحات مشترکہ کوششوں اور مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی ہیں۔ ہم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوں گے، جب ہم تمام سٹیک ہولڈرز اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات سے بلند ہو کر ان معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کریں گے۔ یہاں میں اپوزیشن بینچز پر بیٹھے ساتھیوں سے خصوصی گزارش کروں گا کہ وہ اس بجٹ کے حوالے سے ہماری زیادہ سے زیادہ رہنمائی کریں تاکہ ہم مل کر پاکستان کو ترقی کی منزل کی طرف لے جا سکیں۔ اللہ تعالی ہماری ان کاوشوں میں مدد کرے۔
پاکستان زندہ باد۔