اسلام آباد (این این آئی)عالمی بینک نے پاکستان کیلئے 35 کروڑ ڈالرز فنڈز کی منظوری دیدی۔عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ادارہ جاتی اصلاحات پر عمل درآمد کیلئے رقم فراہم کی جائے گی۔اس میں کہا گیا کہ عالمی بینک نے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے پاکستان کی حکمت عملی سے اتفاق کیا۔اعلامیے میں کنٹری ڈائریکٹر عالمی بینک ناجی بنہیسن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاکہ رقم رائز ٹو پروگرام کے تحت منظورکی گئی، رقم توانائی کے شعبے کے نقصانات کم کرنے میں معاون ہوگی۔
واضح رہے کہ اکتوبر میں ورلڈ بینک نے ملک کے معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے معاشی اصلاحات کو ضروری قرار دیا تھا۔پاکستان ڈیویلپمنٹ اپ ڈیٹ، مالی استحکام کی بحالی کے عنوان سے جاری رپورٹ میں ورلڈ بینک نے کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت مالی سال 2023 میں تیزی سے سست روی کا شکار ہوئی جہاں حقیقی جی ڈی پی میں 0.6 فیصد کمی کا تخمینہ لگایا گیا اور ملک کے معاشی استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے معاشی اصلاحات ضروری ہیں۔
عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر برائے پاکستان ناجی بنہیسن نے رپورٹ میں کہا تھا کہ میکرو اکنامک استحکام اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے محتاط اقتصادی انتظام اور ساختی اصلاحات کی ضرورت ہو گی۔انہوں نے کہا تھا کہ مہنگائی کی بلند ترین سطح، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، شدید موسمی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ انسانی ترقی کی سرمایہ کاری اور موسمیاتی موافقت کی مالی اعانت کے لیے ناکافی عوامی وسائل کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ مالی گنجائش پیدا کرنے کے لیے اہم اصلاحات کی جائیں اور جامع، پائیدار اور موسمیاتی لحاظ سے لچکدار ذرائع میں سرمایہ کاری کی جائے۔مالیاتی ایڈجسٹمنٹ اور وسیع البنیاد اصلاحات کے فیصلہ کن نفاذ کے بغیر پاکستان کی معیشت مقامی اور بیرونی دھچکوں کا شکار رہے گی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے بخوبی نفاذ، نئی بیرونی مالی اعانت اور مسلسل مالیاتی روک تھام کی پیش گوئی کے پیش نظر حقیقی جی ڈی پی کی نمو مالی سال 2024 میں 1.7 فیصد اور مالی سال 2025 میں 2.4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے اس حوالے سے کہا گیا کہ درمیانی مدت کے دوران اقتصادی ترقی کے امکانات کم رہنے کی توقع ہے البتہ سرمایہ کاری اور برآمدات میں کچھ بہتری ہونے کا امکان ہے۔رپورٹ کے مطابق نئی بیرونی رقوم کی بدولت درآمدی پابندیوں میں محدود نرمی سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جلد وسیع ہو جائے گا اور کمزور کرنسی اور توانائی کی بلند قیمتیں افراط زر کے دباؤ کو برقرار رکھیں گی۔انہوں نے کہا کہ مالیاتی استحکام کی وجہ سے بنیادی خسارہ کم ہونے کی توقع ہے البتہ سود کی زائد ادائیگیوں کی وجہ سے مجموعی مالیاتی خسارے میں صرف معمولی کمی آئے گی۔