جمعرات‬‮ ، 21 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

دوست

datetime 12  اکتوبر‬‮  2023
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ ہم لوگ دیہاتی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہزاروں سال سے کھیتی باڑی‘ دوستیاں‘ دشمنیاں اور لڑائی جھگڑے ہمارا کام تھا‘ میرے والد اس خاندان کے پہلے فرد تھے جنہوں نے کاروبار شروع کیا‘ یہ مختلف کاروبار کرتے ہوئے آخر میں ’’بیو پار‘‘ میں ٹھہر گئے‘ ہمارے شہر میں دو منڈیاں تھیں‘ پرانی منڈی اور نئی منڈی۔ ہمارا گھر ان دونوں منڈیوں کے درمیان تھا‘ ہم ایک ایسے محلے میں رہتے تھے جو دونوں منڈیوں کو آپس میں ملاتا تھا‘ میرے والد نے گھر کی بیٹھک کو دکان بنا لیا‘ یہ اس محلے کی پہلی دکان تھی‘ لوگ مکانوں اور گھروں کے درمیان دکان دیکھ کر حیران ہوتے تھے مگر میرے والد ڈٹے رہے‘ اس دکان نے آہستہ آہستہ پوری گلی کو مارکیٹ بنا دیا لیکن یہ میرا موضوع نہیں‘میرا موضوع اس دکان کا حقہ ہے‘ یہ دکان محض دکان نہیں تھی‘

یہ محلے کی بیٹھک بھی تھی‘ یہ پنچایت بھی تھی اور یہ محلے کا چائے خانہ بھی تھی‘ میرے والد فجر کے وقت دکان کھول دیتے تھے‘ حقہ تازہ کر کے دکان میں رکھ دیا جاتا تھا‘ حقہ پنجاب کا سب سے بڑا سماجی رابطہ ہے‘ آپ اگر حقے کے مالک ہیں‘ آپ اگر دن میں تین بار یہ حقہ تازہ کر سکتے ہیں تو آپ جان لیں‘ آپ کا ڈیرہ آباد رہے گا‘ میرے والد کا حقہ تازہ ہوتا رہتا تھا اور گلی سے گزرنے والے لوگ دکان پر رکتے تھے‘ حقے کے ’’پف‘‘ لیتے تھے‘ گپیں لگاتے تھے‘

چائے یا لسی پیتے تھے اور اپنے اپنے کاموں کے لیے نکل جاتے تھے‘ غریب اور امیر اس حقے کے لیے سب برابر تھے‘ یہ حقہ بہت بڑی ’’ایکٹویٹی‘‘ تھا‘ میرے والد اس حقے کا بہت خیال رکھتے تھے‘ اس کا پیندا پیتل کا تھا‘ اس پیتل پر چمڑا چڑھا ہوا تھا‘ چمڑے کو ہر دو تین گھنٹے بعد گیلا کر دیا جاتا تھا‘ یہ گیلا چمڑا حقے کے پانی کو ٹھنڈا رکھتا تھا‘ حقے کی نلیاں سپیشل بانس کی بنی ہوئی تھیں‘ اس بانس پر پیتل کے چمک دار چھلے چڑھے ہوئے تھے‘ نلی کے سرے پر تمباکو کی تہہ جم جاتی تھی‘ میرے والد چار پانچ دن بعد باریک چاقو سے یہ تہہ صاف کرتے تھے‘ نلیوں میں لوہے کی تار گھسا کر نلیاں بھی صاف کی جاتی تھیں‘ تمباکو کو مردان سے خصوصی طور پر منگوایا جاتا تھا‘ تمباکو کے اوپر گڑ رکھا جاتا تھا‘ یہ گڑ بھی خصوصی ہوتا تھا‘ حقے کی چلم (ہمارے علاقے میں اسے ٹوپی کہا جاتا ہے) گجرات شہر کی خصوصی مٹی سے بنائی جاتی ہے‘ یہ گجرات سے آتی تھی‘ کیکر کی چھال جلا کر چلم کی آگ بنائی جاتی تھی اور اس آگ کو چلم میں بھرنے کیلئے خصوصی چمٹا ہوتا تھا۔

وہ حقہ اس دکان کی رونق تھا‘ لوگ حقے کے لیے سارا دن وہاں رکتے رہتے تھے‘ حقہ پیتے تھے اور آگے چل پڑتے تھے‘ ہماری دکان کی دوسری ’’بڑی اٹریکشن‘‘ ٹیلی فون تھا‘ یہ محلے کا واحد ٹیلی فون تھا چناںچہ لوگ فون کرنے اور سننے کے لیے بھی وہاں رک جاتے تھے‘ پورے محلے نے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو ہمارا فون نمبر دے رکھا تھا‘ ہم تمام بھائی سکول سے واپسی پر ٹیلی فون آپریٹر بن جاتے تھے‘ لوگوں کے فون آتے تھے اور ہمارے والد ہم میں سے کسی نہ کسی کو محلے داروں کا نام بتا کر اس کے گھر کی طرف دوڑا دیتے تھے‘ ہم ان کے دروازے کی کنڈی بجا کر اونچی آواز میں نعرہ لگاتے تھے ’’چاچا جی آپ کا ٹیلی فون آیا ہے‘‘ اور اندر موجود لوگ ’’فون آیا‘ فون آیا‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ننگے پائوں دوڑ پڑتے تھے‘ اس فون اور اس حقے نے محلے میں ایک نئی کلاس کو جنم دے دیا‘ لوگ فون کرنے اور حقہ پینے کے لیے ہماری دکان پر آتے تھے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے‘

یہ ہمارے والد کو اپنے دکھڑے بھی سناتے تھے‘ یہ چائے بھی وہیں پیتے تھے اور ہمارے والد کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے‘ یہ ادھار بھی لے جاتے تھے اور ہمارے والد کو کسی نہ کسی کام میں بھی استعمال کر جاتے تھے‘ ہم ان لوگوں کو اپنے والد کا گہرا دوست سمجھتے تھے‘ یہ ہمارے چاچا جی بن چکے تھے‘ ہم ان کا بے حد احترام کرتے تھے‘ میرے بچپن کی بات ہے‘ ایک بار میرے والد کا گلا خراب ہو گیا‘ گلے کے اندر انفیکشن ہو گیا‘ تمباکو بلکہ ہر قسم کا دھواں اس انفیکشن کیلئے انتہائی نقصان دہ تھا‘ ڈاکٹروں نے والد کی تمباکو نوشی بند کرا دی‘ میں آپ کو یہاں تمباکو نوشی کے بارے میں ایک دل چسپ حقیقت بھی بتاتا چلوں‘ دنیا میں تمباکو نوشی کی چند غیر مطبوعہ روایات ہیں‘ سگریٹ نوش دنیا کے کسی بھی کونے میں‘ کسی بھی شخص سے‘ کسی بھی وقت سگریٹ مانگ سکتے ہیں اور دوسرا سگریٹ نوش انکار نہیں کرتا‘ یہ تمباکو نوشی کے دوران عموماً گپیں بھی مارتے ہیں‘

میرے والد ’’چین سموکر‘‘ تھے‘ یہ2012ء میں میرے ساتھ ایک بار پیرس گئے تھے‘ جہاز میں تمباکو نوشی کی اجازت نہیں تھی چناںچہ ابا جی نے چھ گھنٹے کی فلائیٹ بڑی مشکل سے گزاری‘ ہم جوں ہی ائیرپورٹ پر اترے‘ اباجی امیگریشن کی ساری قطاریں اور کائونٹرز روند کر باہر نکل گئے‘ راستے میں انہیں جو بھی روکتا تھا‘ یہ انگلی سے سگریٹ کا نشان بناتے تھے اورگورا راستے سے ہٹ جاتا تھا‘ میں امیگریشن کے مسئلے حل کر کے باہر نکلا تو میں نے دیکھا‘ میرے والد ایک گورے کے ساتھ کھڑے ہو کر سگریٹ پی رہے تھے اور اس کے ساتھ گپ بھی لگا رہے تھے‘ میں اس عجیب و غریب تبادلہ خیال پر حیران رہ گیا‘ گورے کا تعلق آسٹریلیا سے تھا‘ وہ انجینئر تھا اور شارٹ کورس کے لیے پیرس آیا تھا‘ وہ انگریزی بول رہا تھا جب کہ ابا جی ان پڑھ تھے اور پنجابی کے علاوہ کوئی زبان نہیں جانتے تھے‘ میں ان کے قریب پہنچا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ آسٹریلین انجینئر ابا جی کو انگریزی میں بتا رہا تھا‘ فلائیٹ بہت لمبی تھی‘ میں نے دس گھنٹے سے سگریٹ نہیں پیا‘ یہ سفر میرے لیے بہت مشکل تھا اور ابا جی اسے پنجابی میں بتا رہے تھے‘

میں نے آخری سگریٹ دوبئی میں پیا‘ چھ گھنٹے سے سگریٹ کے بغیر ہوں اور یہ سفر میرے لیے بھی بہت مشکل تھا‘ دونوں سگریٹ پھونک رہے تھے‘ دو مختلف زبانوں میں گفتگو کر رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے‘مجھے اس وقت معلوم ہوا سگریٹ نوش زبان سے بھی بالا تر ہوتے ہیں ‘یہ مختلف زبانوں‘ علاقوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک دوسرے کا مسئلہ سمجھتے ہیں‘ یہ سگریٹ کی ویلیو سے بھی واقف ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان ہو گئے لیکن ڈاکٹر کا فیصلہ عدالتی فیصلہ تھا‘ میرے والد ڈسپلن کے بھی انتہائی سخت تھے‘ یہ جب کوئی بات ‘ کوئی چیز ٹھان لیتے تھے تو یہ پھر اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے‘

میرے والد نے حقے پر پابندی لگا دی‘ ہم لوگوں نے حقہ اٹھایا اور گودام میں رکھ دیا یوں دکان کی بڑی اٹریکشن اچانک ختم ہو گئی‘ حسن اتفاق سے انہی دنوں ’’ایکس چینج‘‘کی ’’اپ گریڈیشن‘‘بھی شروع ہو گئی اور ہمارا فون بھی عارضی طور پر کٹ گیا یوں دکان کی دوسری اٹریکشن بھی ختم ہو گئی‘ ان اٹریکشنز کے خاتمے کے ساتھ ہی دکان کے رش میں کمی ہو گئی‘ لوگ دکان کے قریب پہنچ کر منہ نیچے کر لیتے تھے اور تیز تیز قدموں سے آگے نکل جاتے تھے‘ وہ لوگ جو روز صبح سویرے ہماری دکان پر آکر بیٹھ جاتے تھے اور ان کی شام بھی اسی دکان پر ہوتی تھی وہ بھی اچانک غائب ہو گئے‘ہم جن کو والد کا انتہائی قریبی دوست سمجھتے تھے‘ جو لوگ ہمارے چاچا جی ہوتے تھے‘ جو گلی میں داخل ہو کر اونچی آواز میں چودھری صاحب کا نعرہ لگاتے تھے اور جو گھنٹوں ہمارے والد کی تعریفیں کرتے تھے‘ وہ سب بھی غائب ہو گئے‘ ہم ان کی شکلیں تک بھول گئے‘ میرے والد سارا دن دکان پر اکیلے بیٹھے رہتے تھے‘ گاہک آتے تھے‘

منشی اور دکان کے کارندے گاہکوں کو ڈیل کرتے تھے لیکن وہ لوگ بھی میرے والد کے قریب نہیں جاتے تھے‘ وہ دور سے انہیں سلام کرتے تھے‘ رسید بنواتے تھے اور رخصت ہو جاتے تھے‘ میں اس وقت پرائمری سکول میں پڑھتا تھا‘ میرے کچے ذہن کے لیے یہ صورت حال ہضم کرنا مشکل تھا‘ میں ایک دن والد کے پاس بیٹھا اور میں نے ان سے پوچھا’’ابا جی آپ کے سارے دوست کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘ میرے والد نے غور سے میری طرف دیکھا‘میری آنکھوں میں اس وقت آنسو تھے‘ میرے والد نے رومال سے میری انکھیں صاف کیں‘ سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے پیار سے کہا’’بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے‘

یہ حقے اور ٹیلی فون کے دوست تھے‘ حقہ بند ہو گیا‘ ٹیلی فون کٹ گیا‘ یہ لوگ بھی کٹ گئے‘ یہ بھی بند ہو گئے‘ جس دن ٹیلی فون اور حقہ واپس آجائے گا‘ یہ لوگ بھی اس دن واپس آجائیں گے‘‘ میرے کچے ذہن نے یہ فلسفہ سمجھنے سے انکار کر دیا‘ میرے والد نے میرے چہرے کی گومگو پڑھ لی‘ وہ بولے بیٹا یاد رکھو اللہ تعالیٰ جب آپ کو کوئی نعمت دیتا ہے تو یہ نعمت اپنے ساتھ نئے دوست لے کر آتی ہے لیکن ہم نعمت کے ان دوستوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتے ہیں‘ یہ ہماری بے وقوفی ہوتی ہے‘ یہ نعمت جس دن چلی جاتی ہے‘

یہ سارے دوست بھی رخصت ہو جاتے ہیں‘ میرے والد نے اس کے بعد شان دار نصیحت کی‘ انہوں نے فرمایا ’’بیٹا آپ کا اصل کمال یہ ہو گا آپ نعمتوں کے دوستوں کو نعمتوں کا دوست رہنے دو‘ آپ ان لوگوں کو کبھی اپنا دوست نہ بننے دو‘ تم زندگی میں کبھی مایوس نہیں ہو گے‘‘ میرے والد نے فرمایا’’ بیٹا آپ کار کے دوستوں کو کار کا دوست سمجھو‘ کاروبار کے دوستوں کو کاروبار کا دوست سمجھو اور اپنے عہدے کے دوستوں کو عہدے کا دوست سمجھو‘ ان لوگوں کو کبھی اپنے دل تک نہ پہنچنے دو‘تمہارا دل کبھی زخمی نہیں ہو گا‘ تم کبھی خون کے آنسو نہیں رو ئوگے‘‘۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…