کراچی (نیوزڈیسک) سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 2005ءمیںپانی کی قلت پر قابو پانے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لےے ایک اسکیم شروع کی گئی تھی ۔ اس اسکیم کے تحت ملک بھر میں پہلے تحصیل کی سطح پر اور پھر دوسرے مرحلے میں یونین کونسل کی سطح پر آر او فلٹر پلانٹس لگانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ اس اسکیم کے لےے 25 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی تھی ۔ وفاقی وزارت خصوصی اقدامات کو اس منصوبے کو مکمل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ اس وقت یہ وزارت جہانگیر خان ترین کے پاس تھی ، جو اس وقت تحریک انصاف کے رہنما ہیں ۔ 10 سال گذرنے کے باوجود یہ منصوبہ نہ تو مکمل کیا جا سکا اور نہ ہی لوگوں کو پانی میسر آ سکا ۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے 2005ءمیں 25 ارب روپے کی خطیر رقم سے پورے ملک میں 6500 سے زیادہ آر او فلٹر پلانٹس لگانے کی اسکیم بنائی تھی ۔ اس کام کے لےے زیادہ تر ان کمپنیوں کو کنٹریکٹ دیئے گئے ، جو ان کاموں کا تجربہ نہیں رکھتی تھیں ۔ نہ ان کے پاس مطلوبہ اسٹاف اور انجینئرز تھے اور نہ ہی وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ تھیں ۔ ان کمپنیوں کو تمام قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نواز دیا گیا ۔ سندھ میں ” جی پی ۔ بی آئی ڈی سی “ نامی کمپنی کو 1005 پلانٹس اور ایور گرین نامی کمپنی کو 305 آر او پلانٹس لگانے کا کام سونپا گیا تھا ، جن کی مجموعی مالیت 7 ارب روپے تھی ۔ پنجاب ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مختلف کمپنیوں کو 4000 آر او پلانٹس لگانے کے ٹھیکے دیئے گئے تھے ، جن کی مالیت 21 ارب روپے تھی ۔ ان میں توصیف انٹر پرائز ز ، کے ایس بی پمپس ، امین برادرز ، اے اے فلو میٹک ، رین ڈراپ اور سو سیف نامی کمپنیاں شامل تھیں ۔ اربوں روپے ایڈوانس رقم کے بعد مشکل سے ان منصوبوں پر بمشکل 5 فیصد پیش رفت ہو سکی اور تمام کمپنیاں کنٹریکٹ کی شرائط پوری کرنے میں ناکام ہو گئیں ۔ ان کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا بلکہ آر او پلانٹس پر لوگوں کا ختم ہو گیا حالانکہ آ راو ٹیکنالوجی سے تمام خلیجی ممالک میں صاف پانی حاصل کیا جا رہا ہے ۔ ان منصوبوں کو ناکام کرنے میں واٹر ٹینکر مافیا بھی پیش پیش تھی کیونکہ ان منصوبوں 10 ملین گیلن سے زیادہ پانی روزانہ لوگوں کو ملتا اور ہائیڈرنٹ مافیا کی کمائی بند ہو جاتی اور یہ ہائیڈرنٹ مافیا کی کمائی دہشت گردی میں استعمال بھی نہ ہوتی ۔ ایک طرف تو ٹھیکہ لینے والی تمام کمپنیاں ناکام ہوئیں اور دوسری طرف ان پلانٹس کو لگانے کی لاگت کا جب دوسرے حکومتی ٹھیکوں سے موازنہ کیا گیا تو یہ لاگت سو فیصد زیادہ نکلی مگر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی ۔ یعنی جس پلانٹ کی لاگت سندھ میں 45 لاکھ روپے تھی ، اسی پلانٹ کی لاگت وفاقی حکومت میں 77 لاکھ روپے تھی ۔ ان پلانٹس کے آپریشن اور مینٹی ننس کی لاگت تو 4 گنا زیادہ تھی ۔ سندھ میں 500 آ ر او پلانٹس کو چلانے کا سالانہ خرچہ 7 کروڑ تھا اور وفاقی حکومت میں یہ خرچہ 21 کروڑ روپے سے زیادہ تھا ۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا بڑا اسکینڈل ہے ، اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ۔