مشتاق رئیسانی کے گھر کسی سٹیٹ بینک سے کم نہیں،کتنی پاکستانی کرنسی،کتنے بانڈ،کتنے ڈالر،پاؤنڈ،ریال،سونااور جوہرات برآمد ہوئے؟ناقابل یقین انکشافات

20  فروری‬‮  2017

کوئٹہ (آئی این پی ) نیب بلوچستان نے احتساب عدالت کوئٹہ ون کے جج عبدالمجید کی عدالت میں سابق مشیر خزانہ میر خالد لانگو ،سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی ،سابق سیکرٹریز لوکل گورنمنٹ حافظ عبدالباسط ،فیصل جمال ،ٹھیکیدار سہیل مجید ،نوراللہ کے خلاف ریفرنس دائرکردیا جس سے عدالت نے منظور کرتے ہوئے سابق سیکرٹریز لوکل گورنمنٹ حافظ عبدالباسط اورفیصل جمال سمیت سابق مشیر خزانہ کے فرنٹ

مین نوراللہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بھی احکامات جاری کئے ۔دائر کردہ ریفرنس میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ نیب نے ریفرنس میں موقف اختیار کیاہے کہ بڑے پیمانے پر لوکل گورنمنٹ کے فنڈز میں خرد برد کی گئی میونسپل کمیٹی مچھ اور خالق آباد کو کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کئے گئے مگر ترقیاتی کام نہیں کئے گئے ،ابتدائی تحقیقات میں الزامات کی تصدیق کے بعد غبن کی مزید تحقیقات کیلئے انکوائری کی گئی جن کے نتیجے میں یہ ثابت ہواکہ محکمہ خزانہ میں کروڑوں روپے کا غبن ہواہے ،حکومت بلوچستان کے گرانٹ ان ایڈ سے غیر قانونی طورپر فنڈزکااجراء کیاگیاجن کو میونسپل کمیٹی مچھ اور خالق آباد کوجاری کئے جو بعد ازاں ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل کئے گئے ،نیب ریفرنس میں کہاگیاکہ سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق احمدرئیسانی کی رہائش گاہ پرچھاپے کے دوران 347,077,500روپے کیش ،53,320,000کی مالیت کے قومی انعامی بانڈز ،23,67,543ڈالر ،15ہزار برطانوی فاؤنڈز ،16,010سعودی ریال ،سونا ،زیوارت ،جن کا وزن 3489.136گرام اور خالص سونا 2718.413 گرام ،ایک عدد رویلکس گھڑی برآمدکرکئے ضبط کئے گئے ،الزامات کی تصدیق اور متعلقہ ابتدائی معلومات کے حصول اور تجزیے کے بعد انکوائری کو تحقیقات میں بدل دیاگیا ،

تحقیقات کے دوران ثابت ہواکہ بدعنوانی اور غبن لوکل گورنمنٹ کے گرانٹ ان ایڈ میں ملزمان میر خالد لانگو ،مشتاق احمد رئیسانی اور سلیم شاہ کی ملی بھگت سے کی گئی ہے ،ریفرنس میں کہاگیاکہ مزید معلومات یہ ہوئی کہ یہ کرپشن سہیل مجید شاہ کی مدد سے جو کہ خالد لانگو کا فرنٹ مین تھا ،ریفرنس میں مزید کہاگیاکہ حاصل کئے گئے ثبوتوں سے یہ ثابت ہواکہ مذکورہ بالا ملزمان نے ایک دوسرے کی مدد سے 2249.133ملین روپے اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرکے براہ راست فنڈز مچھ اور خالق آباد کے میونسپل کمیٹی کے ایڈمنسٹریٹر کو جاری کئے ،بعد میں ان براہ راست جاری کئے گئے فنڈز کو لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2010(BLGA2010)کے تحت گرانٹ کمیٹیوں کے ذریعے ریگولرائز کرنے کی کوشش کی گئی یہ لوٹی گئی رقم بعد میں رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں ملزمان کے ایجنٹس کی مدد سے استعمال کی گئی ،انکوائری اور تحقیقات سے معلوم ہواکہ مچھ میونسپل کمیٹی کو جاری کی گئی رقم اور بعد میں خالق آباد میونسپل کمیٹی کو جاری کی گئی رقم جو ترقیاتی کاموں وغیرہ کیلئے تھی کو استعمال نہیں کیاگیا بلکہ ملزمان خالد لانگو ،مشتاق احمدرئیسانی اورسلیم کے مابین کے تناسب سے تقسیم کی گئی ،تحقیقات کے دوران سلیم شاہ کے ساتھی رضاکارانہ طورپر پیش ہوئے اور وہ جائیدادیں جو ان کی نام پر خریدی گئی تھی کو سرنڈر کیاسلیم شاہ کے وہ ساتھی جن کے بینک اکاؤنٹس غبن کی گئی رقم کی لانڈرنگ کیلئے استعمال ہوئے تھے بھی سامنے آئے جن کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ہیں ،

سلیم شاہ اور سہیل مجید شاہ نے اپنی کمپنیوں کے اکاؤنٹس استعمال کئے ،خاندان کے افراد اور ملازمین کے بھی جن کے ذریعے 2249.133ملین روپے لوکل گورنمنٹ سے ٹرانسفر ہوئے یہ غبن شدہ رقم ملزمان سلیم شاہ ،میر خالد لانگو (بذریعہ فرنٹ مین سہیل مجید شاہ )اور مشتاق احمدرئیسانی کے درمیان تقسیم ہوئے ،ملزم مشتاق احمدرئیسانی نے غبن کی گئی رقم پلی بارگین کے تحت سرنڈر کرنے کی درخواست دی جو کہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے منظور کی گئی جس کی منظوری نیب عدالت میں زیر التواء ہے اور موصوف اس ریفرنس میں نامزد ملزم ہے ۔ملزم خالد لانگو کاکردار ان کے فرنٹ مین سہیل مجید شاہ کے موبائل فون ڈیٹا کے فرانزک تجزیے کی روشنی میں فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ اور ایل سی جی سی کے میٹنگ کے ریکارڈ سے واضح ہوتی ہے کہ وہ بحیثیت مشیر خزانہ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کے ذمہ دارہے ،نیب کی جانب سے دائر کئے گئے ریفرنس میں کہاگیاکہ مشتاق احمدرئیسانی جوکہ مرکزی ملزم ہے نے اپنی پلی بارگین کی درخواست میں غبن کی گئی رقم سے اپنی زوجہ اور دیگر افراد خانہ کے نام سے بنائی گئی جائیداد کو سرنڈر کیا چونکہ افراد خانہ کے نام پر خریداگیا تمام جائیداد سرنڈر کیاگیااس لئے وہ اس ریفرنس کا حصہ نہیں ہے ،ملزم سہیل مجید شاہ جس کے پاس بحیثیت فرنٹ مین (میر خالد لانگو)نے 960ملین روپے کیلئے پلی بارگین کی درخواست دی ہے جوکہ تاحال نیب کورٹ میں جمع نہیں کرائی گئی

کیونکہ انہوں نے 460ملین روپے مزید جمع کرانے ہیں ،ریفرنس میں کہاگیاکہ ملزم حافظ عبدالباسط اور فیصل جمال ایل سی جی سی کی میٹنگز میں شرکت کرتے رہے ہیں ،ڈائریکٹ فنڈز کے اجراء کاعلم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے ماتحت لوکل کونسل کے آفیسران کو براہ راست محکمہ خزانہ کے ساتھ تعلق کو نہیں روکا جس سے کرپشن کی راہ ہموار ہوئی تحقیقات میں ان کی جانب سے کسی قسم کے مالی فائدے کا حصول سامنے نہیں آیا

حافظ عبدالباسط اور فیصل جمال نے بے ضابطہ گیاں کی ہے ملزم نوراللہ نے خالد لانگو کے ساتھ کاکرداراداکیا ،تحقیقات کے دوران اکٹھے کئے گئے شواہد سے ثابت ہواہے کہ ملزمان جرم کے ارتکاب میں کرداراداکیاہے جس سے مجموعی طورپر مچھ اور خالق آباد میونسپل کمیٹیوں کوسال 2013تا 2016کے دوران 2249.133ملین روپے کا نقصان ہوااورملزمان نے سرکاری فنڈز میں غبن کیاملزم سلیم شاہ کو مجاز اتھارٹی کی جانب سے استغاثہ کی کارروائی کی مضبوطی کیلئے معافی دی گئی ۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…