ایک مردِ صالح روایت کرتے ہیں،میں ایک مسجد میں نماز ادا کرنے گیا-وہاں ایک عابد اور ایک تاجر پہلے سے موجود تھے۔عابد دُعا کر رہا تھا:.” باری تعالیٰ! آج میں ایسا ایسا کھانا اور اس قِسم کا حلوہ کھانا چاہتا ہوں۔ ”تاجر نے سُنا تو کہا:” اگر یہ مجھ سے کہتا تو میں اسے ضرور کِھلاتا۔مگر یہ تو بہانہ سازی کر رہا ہے۔مجھے سُنا کر اللّہ سے دُعا کر رہا ہے تاکہ میں سُن کراسے کِھلاؤں۔بخدا! میں تو اسے نہیں کِھلاؤں گا۔
”عابد دُعا سے فارغ ہو کر مسجد کے ایک گوشہ میں سو رہے۔کچھ دیر بعد ایک شخص ہاتھ میںسرپوش ( خوان پر ڈالنے کا کپڑا ) سے ڈھکا ہُوا خوان لے آیا،چاروں طرف نِگاہ دوڑا کر عابد کے پاس گیا اور اسے جگایا اور دسترخوان عابد کے روبرو رکھ کر دُور ہٹ گیا۔تاجر نے دیکھا تو اس میں وہ تمام کھانے موجود تھے عابد جن کے لیے دُعا کر چُکا تھے۔عابد نے خواہش کے مطابق تناول فرمایا اور بقیہ واپس کر دیا۔تاجر نے کھانا لانے والے شخص سے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا:” کیا تم انہیں پہلے سے جانتے ہو؟ ”اس شخص نے کہا:” بخدا! ہرگِز نہیں،میں ایک مزدور ہوں میری بیوی اور بیٹی سال بھر سے ان کھانوں کی خواہش رکھتی تھیں مگر مہیّا نہیں ہو پاتے تھے۔آج میں نے ایک شخص کی مزدوری کی تو اس نے مجھے ایک مثقال سونا دیا،میں نے اس سے گوشت وغیرہ خریدا اور میری بیوی کھانا پکانے لگی۔اتنے میں میری آنکھ جو لگی تو میں نے حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا،فرمایا! آج تمہارے علاقہ میں ایک ولی آیا ہُوا ہے اس کا قیام مسجد میں ہے جو کھانے تم نے اپنے بال بچوں کے لیے تیار کرائے ہیں ان کھانوں کا اسے بھی شوق ہے اس کے پاس لے جا۔وہ اپنی اِشتِہا ( کھانے پینے کی خواہش ) کے مطابق کھا کر واپس کر دے گا۔
بقیہ میں اللّہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا اور میں تیرے لیے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔خواب سے اُٹھ کر میں نے حُکم کی تعمیل کی۔ ”تاجر نے کہا:” میں نے اس شخص کو اللّہ تعالیٰ سے انہی کھانوں کے لیے دُعا کرتے سُنا تھا،تُو نے ان کھانوں پر کتنا پیسہ لگایا۔ ”مزدور نے کہا:” مثقال بھر سونا۔ ”تاجر نے کہا:” کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تُو مُجھ سے دس مثقال سونا قبول کر کے اپنے اس عملِ خیر میں سے مجھے ایک قیراط کا حِصّہ دار بنا لے؟
”مزدور نے کہا:” یہ نامُمکن ہے۔ ”تاجر نے کہا:” اچھا میں اتنے کے لیے تجھے بیس مثقال سونا دیتا ہوں۔ ”مزدور نے پِھر بھی اِنکار کِیا۔تاجر نے سونے کی مقدار بیس سے بڑھا کر پچاس اور سو مثقال تک پہنچائی تو مزدور نے کہا:” واللّہ! جس شے کی ضمانت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے اگر تُو اس کے بدلے ساری دُنیا کی دولت دے دے پِھر بھی میں اسے فروخت نہیں کروں گا۔ ”تاجر اپنی اس غفلت پر نہایت نادم ہو کر حیران و پریشان مسجد سے نِکل گیا۔گویا اس نے اپنی کوئی متاع گراں بہا گُم کر دی ہو۔