ایک دفعہ ایف سی کالج لاہور کا سالانہ اجلاس تھا، جس میں علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ بھی مدعو تھے، کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لوکس نے علامہ صاحب رح سے کہا کہ آپ کے آپ اجلاس اور چائے سے فارغ ہونے کے بعد ذرا ٹھہریئے گا۔ مھجے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ ڈاکٹر لوکس تقریب سے فارغ ہونے کے بعد علامہ رح کے پاس آئے اور سوال کیا کہآیا
آپ کے نزدیک آپ کے نبی صلی اللہ و علیہ وسلم پر قرآن کا مفہوم نازل ہوتا تھا جسے وہ اپنے الفاظ میں بیان کردیتے تھے یا الفاظ بھی نازل ہوتے تھے؟ علامہ نے صاف جواب دیا کہ میرے نزدیک قرآن کی عبارت عربی زبان میں آنحصرت صلی اللہ و علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی یعنی قرآن کے مطالب ہی نہیں بلکہ الفاظ بھی الہامی ہیں۔ ڈاکٹر لوکس نے اس پر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ جیسا اعلی پایہ فلسفی(VERBAL INSPIRATION)الہام لفظی پر کیونکر اعتقاد رکھ سکتھا ہے۔علامہ رح نے ارشاد فرمایا ڈاکٹر صاحب، میں اس معاملے میں کسی کے دلیل کا محتاج نہیں۔ مجھے تو خود اس کا تجربہ حاصل ہے۔ میں پیغمبر نہیں ہوں۔ محض شاعر ہوں۔ جب مجھ پر شعر کہنے کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو مجھ پر بنے بنائے اور ڈھلے ڈھلائے شعر اترنے لگتے ہیں، اور میں انھیں بعینہ نقل کرتا ہوں۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے ان اشعار میں کوئ ترمیم کرنی چاہی لیکن میری ترمیم اصل اور ابتدائ نازل شدہ شعر کے مقابلے میں بالکل ہیچ نظر آئ، اور میں نے شعر کو جوں کا توں رکھاْ۔ جس حالت میں ایک شاعر پر پورا شعر نازل ہوسکتا ہے تو اس میں کیا مقام تعجب ہے کہ آنحصرت صلی اللہ و علیہ وسلم قرآن کی پوری عبارت لفظ بہ لفظ نازل ہوتی تھی؟ اس پر ڈاکٹر لوکس لاجواب ہوگئے۔