پاکستان میں کرپشن کی ہوشربا داستانیں کوئی نئی بات نہیں، آئے روز اخبارات و الیکـٹرانک میڈیا پرعجب کرپشن کی غضب کہانیاں دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں، مجرم پکڑے جاتے ہیں اور ان کو پکڑنے والا ادارہ نیب پلی بار گین کے نام پر نہ صر ف ان مجرموں کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے نام پر اس لوٹی ہوئی دولت کا ایک حصہ
واپس خزانے میں جمع کروا کر سرخرو ہو جاتا ہے ۔ آج سے 1400سال قبل انہیں واقعات سے ملتا جلتا واقعہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں پیش آیا تھا ، حضرت عمر فاروقؓ نے ایک تاریخ ساز فیصلے سے رہتی دنیا تک ایسی مثال قائم کی جسے آج پاکستان میں ہونیوالی زہریلی لوٹ مار میں تریاق کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کا ایک بیٹا تلاش روزگار میں عراق گیا۔ ایک سال کے بعد مال سے لدے اونٹوں کے ساتھ واپس آیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ بیٹا اتنا مال کہاں سے آگیا۔ بیٹے نے جواب دیا تجارت کی۔ باپؓ نے پوچھا تجارت کیلئے پیسہ کہاں سے آیا؟جواب دیا چچا(کوفہ کے گورنر)نے ادھار دیا، جو تجارت میں منافع کے بعد لوـٹا دیا۔ حضرت عمرؓ نے گورنر کوفہ کو طلب کیا اور پوچھا:’’کیا وہاں بیت المال میں اتنی دولت جمع ہو گئی ہے کہ ہر شہری کو قرض دے سکو‘‘۔ گورنر نے جواب دیا، ایسا تو نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا پھر اسے قرض میرا بیٹا سمجھ کر دیا ناَ میں تمہیںمعزول کرتا ہوں، تم اس منـصب کے قابل نہیں۔ حضرت عمرؓ نے بیٹے کو حکم دیا کہ ’’سارا مال بیت المال میں جمع کروا دو، اس پر تمہارا کوئی حق نہیں‘‘۔