حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مسلمان ہو چکے تھے اور ان کی پاکیزہ روح، قرب خداوندی کے انس کو محسوس کر چکی تھی حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس دین جدید، دین اسلام کے جب گن گانے شروع کئے تو کفر کے سرداروں کو اس کا پتہ چلا، انہوں نے ان کی آواز سنی جس سے نور حق نمایاں ہو رہا تھا تو انہوں نے حضرت بلالؓ کی گردن میں طوق اور زنجیریں ڈالیں ۔
مکہ کے دو پہاڑوں کے درمیان گھمایا پھرایا اور ان کو تپتی ریت پر بھی ڈالا پھر ایک بڑا پتھر لائے جو ان کے سینے پر رکھ دیا کہ شاید یہ اپنے معبودوں کی طرف لوٹ آئے لیکن اس سے ان کے دینی تصلب میں اضافہ ہی ہوا اور خدا کے دین کی محبت ان کے دل میں مزید پیدا ہوئی اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبان سے ’’احد، احد‘‘ ہی کے الفاظ نکل رہے تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہ لوگ اس کے ساتھ سخت سلوک کر رہے ہیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیہ بن خلف سے کہا کہ خدا کا خوف کرو! اس بیچارے کو کیوں اذیت پہنچا رہے ہو؟ اور اس کو کب تک تکلیف دیتے رہو گے؟ امیہ بن خلف نے کہا کہ تم نے ہی اس کو بگاڑا ہے لہٰذا تم ہی اس کو اس مصیبت سے خلاصی دلاؤ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نو اوقیہ چاندی کے عوض حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خرید لیا اور انہیں اپنے ہمراہ لے کر واپس ہوئے۔ اس کے بعد امیہ نے اذراہ تمسخر کہا کہ ہاں اس کو لے لو، لات و عزیٰ کی قسم! اگر تم ایک اوقیہ چاندی کے عوض بھی لیناچاہتے تو میں اس کو بیچ دیتا۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسمچ اگر مجھے اس کے لئے سو اوقیہ چاندی بھی دینی پڑتی تو میں ضرور دیتا۔