طائف کی لڑائی میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ کو تیر لگا جس سے وہ شہید ہو گئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے بیٹی! عبداللہ کی شہادت میرے نزدیک بکری کے کان کی مانند ہے جو گھر سے نکال دی گئی ہو (آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد اس مصیبت کو کم جتانا تھا) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمانے لگیں۔
اللہ کا شکر ہے جس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صبر کرنے کی طاقت دی اور ہدایت پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدد فرمائی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ باہر گئے پھر گھر تشریف لائے اور فرمایا اے بیٹی! شاید کہ تم نے عبداللہ کو دفن کر دیا ہو جبکہ وہ زندہ ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پڑھا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اے ابا جان! ہم اللہ ہی کی ملک ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غمزدہ ہو کر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی جو سمیع و علیم ہے پناہ میں آتا ہوں۔ شیطان مردود کی حرکتوں سے۔ پھر اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا، اے بیٹی! کوئی شخص ایسا نہیں جس کے لئے اثر نہ ہو، ایک تو فرشتہ کا اثر اور دوسرا شیطان کا اثر (وسوسہ)۔ کچھ عرصہ کے بعد جب ثقیف کا وفد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ تیر جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا، ان کو دکھایا اور پوچھا، تم میں سے کوئی اس تیر کو پہچانتا ہے؟ بنوعجلان کے آدمی سعد بن عبید بولے، ہاں، اس تیر کو میں نے تراشا تھا اور اس پر پر لگایا اور اس کو تانت سے باندھا اور میں نے ہی اس کو چلایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اسی تیر نے میرے بیٹے کو شہید کیا، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تیرے ہاتھ سے اس کو عزت دی اور شہید ہوا اور تم کفر کی حالت میں مرو گے کیونکہ وہ بہت خوددار ہے۔