جب حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بصرہ کے امیر بنے تو ان کا معمول تھا کہ جب بھی خطبہ پڑھتے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرتے پھر حضور نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے اور پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بھی دعا کرتے، ہر جمعہ ان کا یہی معمول تھا، ایک دن ایک آدمی جن کا نام ضبتہ بن محصن تھا کو ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ معمول ناگوار ہوا
اور اس نے سخت لہجہ میں ان سے کہہ دیا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہوتے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت دیں؟ اس پر ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ غضبناک ہوئے اور انہوں نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ ضبتہ بن محصن میرے ساتھ میرے خطبہ کے بارے تعرض کرتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ اس آدمی کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ ضبتہ بن محصن مدینہ منورہ پوہنچے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے پیش ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا خدا کرے کہ تیری جنگ تنگ ہو اور اہل نہ رہے (یعنی بددعا دی) ضبتہ نے کہا وسعت اور کشادگی تو اللہ تعالیٰ دینے والے ہیں اور باقی رہے اہل تو میرا کوئی مال و اولاد نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بلاوجہ اور بلاقصور میرے شہرسے کیوں بلایا، میں نے کوئی جرم بھی نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تمہارا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کس بات کا جھگڑا ہے؟ ضبتہ نے کہا امیرالمومنین! اچھا اب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتاتا ہوں، ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بھی خطبہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر درود شریف بھیجنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتاتا ہوں۔
ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بھی خطبہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور حضورﷺ پر درود و شریف بھیجنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے دعا کرتے ہیں، پس اس بات نے مجھے برا فروختہ کیا اور میں نے ان سے کہا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کون ہوتے ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت اور فوقیت دیں؟
مگر انہوں نے فوراً آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میری شکایت کر دی۔ (یہ سنتے ہی) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے، آنسو ان کے رخساروں پر بہنے لگے، فرمایا کہ خدا گواہ ہے کہ تم ان سے زیادہ رشد و ہدایت رکھنے والے اور ان سے زیادہ توفیق والے ہو۔ کیا میرا قصور کوئی معاف کرنے والا ہے؟
اللہ تعالیٰ تیرا قصور معاف فرمائے۔ ضبتہ نے کہا اے امیرالمومنین! اللہ تعالیٰ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قصور معاف فرمائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا۔ خدا گواہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک رات اور ایک دن، عمر اور عمر کے خاندان سے زیادہ افضل ہے۔