کوفہ اور بصرہ کے کچھ لوگ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملنے مدینہ منورہ آئے، یہاں پہنچ کر آپس میں بحث کرنے لگے کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما میں افضل کون ہے؟ بعضوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل قرار دیا اور بعضوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل قرار دیا۔
ان میں ایک شخص جارود بن المعلی بھی تھے ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں۔ اسی دوران حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لے آئے اور ان کے ہاتھ میں کوڑا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے جو ان کو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر فضیلت و فوقیت دیتے تھے اور ان کے اپنے اس کوڑے سے مارنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے ہر شخص ان کے پاؤں پکڑ کر اپنا بچاؤ کرنے لگا۔ جارود کہنے لگے اے امیرالمومنین! ہوش میں آئیے! ہوش میں آئیے! اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ ہمیں دیکھے کہ ہم ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفضیلت دیتے ہیں، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس معاملہ میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں اور اس مسئلہ میں بھی آپ رض اللہ تعالیٰ عنہ سے افل ہیں! (یہ سن کر) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ دور ہوا اور واپس چلے آئے، جب شام ہوئی تو منبر پر چڑھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد فرمایا خبردار! خدا کے پیغمبرﷺ کے بعد اس امت کے افضل ترین آدمی ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو شخص اس کے بعد کسی اور کو افضل کہے گا تو وہ جھوٹ گھڑے گا اور اس کی وہی سزا ہو گی جو ایک افتراپرداز کی ہوتی ہے۔