آنحضرتﷺ کی وفات کی خبر پھیلتے ہی کندہ اور حضر موت تک پہنچی تو وہاں کے فاسقوں اور منافقوں نے جشن منایا اور سانپ (کفار) اپنی بلوں سے نکل آئے اور کچھ عورتیں نمودار ہوئیں جو خوشی کا اظہار کر رہی تھیں۔ ان عورتوں نے اپنے ہاتھ مہندی سے رنگے اور دف بجاتی ہوئی باہر نکل آئیں۔
یہ حالت دیکھ کر ایک غیرت مند مسلمان کھڑا ہوا اور اس نے اس منافقانہ سرکشی کیخلاف عملی قدم اٹھاتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ ایک پیغام بھیجا جس میں اس نے یہ اشعار لکھے ’’ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ کر یہ پیغام پہنچاؤ کہ یہاں بدکار عورتوں نے تہمتیں لگائی ہیں ان عورتوں نے حضورﷺ کی وفات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ہاتھ مہندی سے رنگے ہیں خدا آپ ؓ کو توفیق دے، آپ ان کے ہاتھ تیز تلوار سے کاٹ دیں۔ جیسے بجلی آسمان پر چمکتی ہے‘‘۔یہ پیغام حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بجلی بن کر گرا، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا متواضع انسان آتش فشاں پہاڑ بن گیا اور اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے شمشیر بے نیام بن گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً اپنے گورنر کو یہ حکم بھیجا کہ وہ جا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے لئے انتقام لیں چنانچہ انہوں نے ان عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ہاتھ کاٹ دیئے۔