’’قتال حتی الموت‘‘ یعنی جنگ آخردم تک ہو گی۔ یہ نعرہ تھا جو حضرت علی بن ابی طالبؓ نے اس وقت لگایا جب یہ افواہ پھیلی کہ آنحضرتؐ کو شہید کر دیا گیا۔ یہ خبر بجلی بن کر گری، قریب تھا کہ حضرت علیؓ کے مرتعش ہاتھ سے شمشیر گر جاتی،
آپؓ نے انتظار نہیں کیا اور خوف کے سایہ میں دوڑتے ہوئے میدانِ قتال میں پہنچے اور یہاں مقتولین میں آنحضورؐ کو تلاش کیامگر حضورؐ کہیں بھی نظر نہ آئے۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر جمے رہے، پھر کچھ سوچنے کے بعد (دل ہی دل میں) کہنے لگے: رسول اللہؐ تو ان مقتولین میں موجود نہیں ہیں، خدا کی قسم! حضورؐ میدانِ جہاد سے بھاگنے والے نہیں ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمارے اس عمل کے سبب اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض اور ناخوش ہوا ہے۔ اس لیے اپنے محبوبؐ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ پھر آپؓ نے میان سے تلوار نکالی اور میان کو توڑ ڈالا اور فرمایا کہ اب تو خیر و بھلائی اسی میں ہے کہ میں دشمن کے ساتھ لڑتارہوں یہاں تک کہ قتل ہو جاؤں۔ یہ کہہ کر دشمن پر حملہ کر دیا جس طرح ایک شیر، ہرنوں پر حملہ آور ہوتاہے۔ آپؓ برابر لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ جب دشمن کی صفیں درمیان سے ہٹیں تو آپؓ نے دیکھا کہ رسول اللہؐ ان کے درمیان میں موجود ہیں، آپؓ فوراً آنحضورؐ پر جھک گئے اور حضورؐ کو گلے لگا لیا اور چومنے لگے، جب حضرت علیؓ کو قریبِ رسولؐ نصیب ہوا تو سارا حزن و ملال جاتا رہا۔