حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پریشانی کے عالم میں اپنے تہبند کے کونہ کو پکڑے دوڑے جا رہے تھے اور گھٹنے ظاہر ہو رہے تھے چہرے کا رنگ متغیر تھا اور غم و حزن کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔ آنحضرتﷺ پہچان گئے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان کوئی بات چل پڑی ہے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اور ان سے قصور معاف کرنے کی درخواست کی مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ مانے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا! اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! اللہ تیری مغفرت کرے تین بار فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ندامت ہوئی اور فوراً ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پہنچے جب گھر پر نہ ملے تو حضور نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہوئے، جب قریب ہوئے تو آنحضرتﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آنکھیں سرخ ہو گئیں حتیٰ کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈر گئے اور فوراً دو زانو ہو کر بیٹھے اور انتہائی عاجزی کے ساتھ عرض کیا یا رسول اللہﷺ! خدا کی قسم! میں نے ہی ظلم کیا تھا، میں نے ہی ظلم کیا تھا! اس کے بعد رسول کریمﷺ نے فرمایا! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف مبعوث فرمایا تو تم نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، لیکن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی جان اور مال کے ذریعے میرے ساتھ ہمدردی کی تو کیا تم (لوگ) میری خاطر میرے ساتھی کو چھوڑ دو گے؟ (دو مرتبہ فرمایا) پھر اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تکلیف نہ دی گئی۔