صبح ہوتے ہی ایک آدمی نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ میں نے آج رات خواب میں ایک بادل کا ٹکڑا دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے اور لوگ اسے ہاتھوں میں لے کر پی رہے ہیں، ان میں زیادہ پینے والے بھی ہیں اور کم پینے والے بھی ہیں، پھر میں نے آسمان سے زمین تک لٹکتی ہوئی ایک رسی دیکھی۔
میں آپﷺ کو دیکھتا ہوں کہ آپﷺ نے اس (رسی) کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے، پھر آپﷺ کے بعد ایک اور آدمی نے اسے پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور اوپر چڑھ گیا، پھر جب ایک اور آدمی نے اسے پکڑا (اور اوپر چڑھنے لگا) تو وہ ٹوٹ گئی لیکن اسے دوبارہ جوڑ دیا گیا اور اس طرح وہ بھی چڑھ گیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں، واللہ! آپﷺ مجھے اس کی تعبیر بیان کرنے دیں! آنحضورﷺ نے فرمایا، اچھا تم تعبیر بیان کرو۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگا بادل کا وہ ٹکڑا اصل میں اسلام کے بادل کا ٹکڑا ہے اور اس میں سے ٹپکنے والا گھی اور شہد کی تعبیر قرآن سے ہے جس کی مٹھاس اور نرمی، شہد اور گھی سے مناسبت رکھتی ہے، زیادہ اور کم پینے والے بھی قرآآن زیادہ اور کم سیکھنے والے ہیں، اور آسمان سے زمین تک لٹکتی ہوئی رسی وہ حق ہے جس پر آپﷺ قائم ہیں، جس کو آپﷺ پکڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ آپﷺ کو اوپر اٹھا لیں گے، پھر آپﷺ کے بعد آنے والا ایک شخص تھامے گا اور اوپر کی طرف چڑھ جائے گا، پھر دوسرا آدمی بھی اسے تھامے گا اور وہ بھی اوپر کی طرف چڑھ جائے گا لیکن جب اس کے بعد آنے والا شخص اسے پکڑے گا تو وہ ٹوٹ جائے گی لیکن پھر جوڑ دی جائے گی اور وہ بھی اوپر کی جانب چڑھ جائے گا۔
پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! مجھے بتائیے میں نے درست تعبیر کی یا غلط؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کچھ صحیح اور کچھ غلط! حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا! یا رسول اللہﷺ خدارا! مجھے میری غلطی ضرور بتا دیجئے۔ حضورﷺ نے فرمایا قسم نہ کھاؤ۔