صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ امر دشوار گزار ہوا کہ وہ بیت اللہ شریف کی خوشبو سونگھے بغیر ہی مدینہ واپس چلے آئیں چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوختہ دل کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، حضورﷺ سے گفتگو کرنے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور دریافت کیا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ!کیا حضورﷺ اللہ کے نبی برحق نہیں ہیں؟
ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، حضورﷺ نبی برحق ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا کیا ہم حق پر اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کیوں نہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر کہا تو پھر ہم اپنے دین کے بارے میں کمزوری کیوں اختیار کریں؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت اطمینان اور اللہ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے فرمایا اے شخص! یہ اللہ کے پیغمبر ہیں، اپنے رب کی نافرمانی نہیں کر سکتے، اللہ تعالیٰ ان کے مددگار ہیں، تم آخری دم تک ان کے دامن سے وابستہ رہو، خدا گواہ ہے کہ یہ پیغمبرﷺ برحق ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’یعنی ہم نے آپﷺ کو فتح مبین عطا فرمائی ہے‘‘۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوڑے ہوئے آئے اور آنحضورﷺ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے اور پوچھنے لگے یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے؟ حضور اکرمﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ہاں (یہ سن کر) ان کا جی خوش ہو گیا اور وہ واپس لوٹ گئے۔