ستارے اپنی ہلکی روشنی کے ساتھ مدینہ کے آسمان پر بکھرے ہوئے تھے، رات کی تاریکی ختم ہونے کو تھی، ایسے وقت میں نبی کریمﷺ، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک طویل حدیث کے بعد واپس آ رہے تھے۔
دریں اثناء یہ حضرات مدینہ کی گلیوں میں چل رہے تھے کہ کسی آدمی کی آواز سنائی دی جو مسجد میں کھڑے نماز پڑھ رہا تھا، نبی پاکﷺ اس کی قرأت سننے کے لئے ٹھہر گئے، پھر حضور اکرمؐ نے فرمایا جو شخص یہ پسند کرے کہ وہ قرآن کو تازہ تازہ جیسے نازل ہوا سنے تو اسے چاہئے کہ ابن ام معبد (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی تلاوت سن لے پھر ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھ گئے اور دعا کرنے لگے تو حضور نبی کریمﷺ فرمانے لگے ’’مانگو! تجھے دیا جائے گا، مانگو تجھے عطا ہو گا‘‘۔ پھر سب اپنے اپنے گھر واپس چلے آئے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے گھر لوٹ گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چاہا کہ وہ جلدی سے یہ خوشخبری ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچا دیں، (اپنے دل میں) کہا کہ میں صبح کو ضرور جا کر انہیں یہ خوشخبری سناؤں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں صبح کو خوشخبری دینے کے لئے پہنچا تو دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے پہلے ہی پہنچے ہوئے ہیں چنانچہ انہوں نے ان کو خوشخبری سنائی، خدا کی قسم! جب بھی میں نے کسی بھی نیکی کے کام میں ان سے مقابلہ کیا تو وہ مجھ پر سبقت لے گئے ہیں۔