بوقت سحر حضرت علیؓ نے وحشت سی محسوس کی اور آپؓ کا ذہن اور خیال موت، قبر، آخرت اور حساب و کتاب کی طرف جانے لگا۔ چنانچہ اپنے ذہن کی طمانیت کے لیے فوراً مدینہ منورہ کے گورستان میں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو خاشعانہ آواز میں پکار کر کہا: اے قبر والو! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ ہاتف غیب سے جواب آیا: تم پر بھی سلام ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔اے امیر المومنین! ہمارے جانے کے بعد جو کچھ ہوا اس کے متعلق ہمیں خبر دیجئے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: جو تمہاری بیویاں تھیں انہوں نے تو آگے شادیاں کر
لیں اور تمہارے جو مال تھے وہ تقسیم ہوگئے اور تمہاری اولاد کا شمار یتیموں کے گروہ میں ہونے لگاہے۔ اور جن عمارتوں کو تم نے تعمیر کیا تھا ان میں دوسرے لوگ آ کر آباد ہو گئے، یہ ہیں وہ خبریں جو ہمارے پاس تھیں، اب تم بتاؤ، تمہارے پاس کیا خبریں ہیں؟ آواز آئی: ہمارے کفن پھٹ گئے، ہمارے شعور منتشر ہو گئے، کھالیں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئیں، آنکھیں رخساروں پر بہہ گئیں، ناک کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہنے لگا ہے جو اعمال ہم نے آگے بھیجے تھے وہ ہم نے پا لیے اور جو کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے اس میں ہمیں خسارہ ہوا اور ہم رہن رکھے ہوئے ہیں۔