جنگ چھڑ گئی، گرد غبار اٹھا، دہکتے سورج کی روشنی میں تلواریں چمکیں اور لاشیں گرنے لگیں، مکہ میںیہ آواز اٹھی کہ اہل فارس، رومیوں پر غالب آ گئے اور وہ جنگ جیت گئے۔ مشرکین کو اس پر خوشی ہوئی، کیونکہ مشرکین اور اہل فارس دونوں اہل کتاب میں سے نہیں تھے، مسلمان یہ چاہتے تھے کہ رومی ان پر غالب آ جائیں، اس لئے کہ مسلمان اور رومی، اہل کتاب میں سے تھے، جب یہ آیت مبارک نازل ہوئی۔
ترجمہ ’’روم والے مغلوب ہو گئے قریب کی زمین میں، اور وہ مغلوب ہونے کے بعد چند ہی سالوں میں پھر غالب ہوں گے‘‘ (سورہ الروم آیت 41)تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ کی گلیوں میں مذکورہ آیات بار بار دہرانے لگے۔ مشرکین نے (یہ دیکھ کر) کہا اے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہارا صاحب کہتا ہے کہ اہل روم چند سالوں کے اندر اہل فارس پر غالب آنے والے ہیں، کیا یہ سوچ ہے؟ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا آپﷺ نے سچ فرمایا ہے۔ وہ کہنے لگے کیا تم اس پر ہمارے ساتھ قماربازی کرتے ہو(یہ قمار بازی کی حرمت سے پہلے کا واقعہ ہے) چنانچہ سات سال تک چار جوان اونٹینوں پر معاہدہ ہو گیا، جب سات سال گزر گئے اور کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تو مشرکین بہت خوش ہوئے لیکن مسلمانوں پر یہ بات شاق گزرنے لگی، جب یہ بات آنحضرتﷺ سے ذکر کی گئی تو آپﷺ نے پوچھا تمہارے نزدیک ’’بضع سنین‘‘ (چند سالوں میں) سے کیا مراد ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا دس سال سے کم مدت۔ آپﷺ نے فرمایا۔ جاؤ! ان سے مزید دو سال کی مدت طے کر لو، چنانچہ حضرت ابوبکرؓ گئے اور ان سے مزید دو سال کی مدت کا معاہدہ طے کیا ابھی دو سال پورے نہ گزرے تھے کہ دونوں کی باہم جنگ ہوئی اور رومیوں کو غلبہ حاصل ہوا، اس طرح مسلمانوں کو وہ خوشخبری مل گئی۔