پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک فقیر آیا، جو فقر و ذلت کا مارا ہوا تھا اور بدن بھی نہایت کمزور و نحیف تھا۔ بارگاہِ مرتضوی رضی اللہ عنہ میں حاضر ہو کر دست سوال دراز کیا۔ حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ سے فرمایا کہ اپنی اماں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ابا جان نے آپؓ کو جو چھ درہم دیے تھے ان میں ایک درہم دے دو۔ حضرت حسنؓ گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد واپس آ گئے،
اور کہنے لگے وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے یہ چھ درہم آٹے کے لیے رکھ چھوڑے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک صادق نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی چیز کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتا جو اس کے پاس ہیں۔ پھر فرمایا: ان سے جا کر کہو کہ چھ کے چھ درہم بھیج دو۔ حضرت فاطمہؓ نے چھ کے چھ درہم بھیج دیے۔ حضرت علیؓ نے وہ چھ کے چھ درہم اس سائل کو دے دئیے۔ ابھی حضرت علیؓ اپنی مجلس سے اٹھے نہیں تھے کہ ایک آدمی آیا جس کے پاس اونٹ تھا، وہ اس کو بیچنا چاہتا تھا، حضرت علیؓ نے پوچھا بھائی! یہ اونٹ کتنے کا ہے؟ اس نے کہا کہ ایک سو چالیس درہم کا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس کو یہیں باندھ دو، میں تجھے اس کی قیمت بعد میں دے دوں گا، اس آدمی نے ایسا ہی کیا، اونٹ باندھا اور جہاں سے آیا تھا چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک اور آمی آیا، اس نے پوچھا: یہ اونٹ کس کا ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرا ہے اس نے کہا کہ آپؓ اس کو بیچیں گے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہاں، اس آدمی نے پوچھا: آپؓ یہ اونٹ کتنے کا بیچیں گے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ دو سو درہم کا۔ اس آدمی نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں نے یہ اونٹ خرید لیا۔ اس نے اونٹ پکڑا اور دو سو درہم حضرت علیؓ کو دے دئیے۔ پھر حضرت علیؓ نے ایک سو چالیس درہم اس آدمی کو دے دئیے جس سے اونٹ خریدا تھا اور باقی ساٹھ درہم لے کر حضرت فاطمۃ الزہراؓ کے پاس پہنچے۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا کہ یہ کیاہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کی زبان سے یہ وعدہ کیا ہے کہ:’’یعنی جو ایک نیکی لائے گا اس کو دس گنا ملے گا‘‘ (الانعام:160)