چاشت کا وقت تھا، آنحضرتﷺ بیت اللہ کے پاس تشریف فرما تھے، آپﷺ کا دہن مبارک ذکر و تسبیح سے معطر ہو رہا تھا کہ خدا کے دشمن ابوجہل کی آپﷺ پر نظر پڑی جو اپنے گھر سے نکل کر بیت اللہ کے ارد گرد بے مقصد پھر رہا تھا، وہ بڑے فخر و تکبر کے انداز میں حضور پرنورﷺ کے قریب آیا اور ازراہِ مزاح کہنے لگا اے محمدﷺ! کیا کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟
حضور اکرمﷺ نے فرمایا ’’ہاں‘‘ آج کی رات مجھے معراج کرائی گئی۔ ابوجہل ہنسا اور تمسخر کے انداز میں کہنے لگا کس طرف؟حضورﷺ نے فرمایا بیت المقدس کی جانب، ابوجہل نے تھوڑی دیر کے لئے ہنسنے سے توقف اختیار کیا، پھر حضورﷺ کے قریب ہو کر آہستہ آواز میں متعجبانہ لہجے میں کہنے لگا رات آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور صبح کو آپ ہمارے سامنے پہنچ بھی گئے؟ پھر مسکرایا اورپوچھنے لگا اے محمدﷺ اگر میں سب لوگوں کو جمع کروں توکیا آپﷺ وہ بات جو آپ نے مجھے بتائی ہے ان سب کو بھی بتا دیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا ہاں۔ میں ان کو بھی بیان کر دوں گا۔ چنانچہ ابوجہل خوشی خوشی لوگوں کو جمع کرنے لگا اور ان کو آنحضورﷺ کی بتائی ہوئی بات بتانے لگا۔ لوگ اظہار تعجب کرنے لگے اور اس خبر کو ناقابل یقین سمجھنے لگے، اسی دوران چند آدمی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کو بھی اس امید پر ان کے رفیق اور دوست کی خبر سنائی کہ ان کے درمیان جدائی اور علیحدگی ہو جائے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ خبر سنتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات سنی تو فرمایا اگر یہ بات حضورﷺ نے فرمائی ہے تو یقیناً درست فرمائی ہے۔ پھر فرمایا تمہارا ستیاناس ہو! میں تو ان کی اس سے بھی بعید از عقل بات میں تصدیق کروں گا۔
جب میں صبح و شام آپﷺ پر آنے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا آپﷺ کی اس بات کی تصدیق و تائید نہیں کروں گا کہ آپؐ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو چھوڑ اور جلدی سے اس جگہ پر پہنچے جہاں حضور نبی کریمﷺ تشریف فرما تھے اور لوگ آپؐ کے ارد گرد بیٹھے تھے اور حضورﷺ ان کو بیت المقدس کا واقعہ بیان کر رہے تھے۔
جب بھی حضورﷺ کوئی بات ارشاد فرماتے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ آپﷺ نے سچ فرمایا، آپﷺ نے سچ فرمایا۔ پس اس روز سے آنحضرتﷺ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ’’الصدیق‘‘ رکھ دیا۔