فاضل ایک ان پڑھ شخص تھا جو کسی طرح پیرس پہنچ گیا۔ وہاں کئی سال رہا۔ سارا دن ہوٹلوں میں برتن دھوتا، باورچی خانے میں جھاڑو دیتا اور رات کو کسی فٹ پاتھ پر پڑ کر سو رہتا۔ آٹھ دس سال بعد سنا کہ فاضل پیرس کے سب سے پوش ہوٹل کا شیف (ہیڈ باورچی) لگ گیا ہے۔ شیف کی تنخواہ ہوٹل کے جنرل منیجر کے برابر ہوتی ہے۔ پھر پتہ چلا کہ فاضل چھٹی پر گاؤں آیا ہوا ہے۔ میں اس سے ملنے کے لئے گاؤں چلا گیا۔
میں نے پوچھا کہ فاضل! کیا تُو واقعی ہوٹل میں شیف ہے؟ وہ ہنسا اور بولا کہ شیف تھا۔ چار سال شیف کا کام کیا۔ اب میں نے وہ ہوٹل خرید لیا ہے۔ میں نے پوچھا کہ تُو کون کون سی ڈشیں بنا سکتا ہے؟ تو وہ بولا کہ انگریزی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، چینی، روسی، عرب، سب ملکوں کے کھانے بنا سکتا ہوں۔ میں نے کہا ’’یہ بتا کہ سب سے عمدہ ڈش کون سی ہے؟‘‘ایک منٹ کے لئے اُس نے توقّف کیا، پھر بولا ’’سچّی بات پوچھتے ہو تو دنیا کی کوئی ڈش ہماری ہانڈی روٹی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جب میں شیف تھا تو میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا کہ صاحب جی! باورچی خانے میں مجھے ایسے برتن چاہئیں جو مٹّی کے بنے ہوئے ہوں‘’’مٹّی کے برتنوں سے کیا فرق پڑا پھر؟‘‘ میں نے پوچھا۔ بولا، ’’میں نے لوگوں کو لذّت کی لت ڈال دی۔ وہ وہ ہانڈیاں پکائیں کہ گوروں کی رال چل پڑی۔ بس جی میں نے وہاں ایک بات سیکھی ہے کہ کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام کا جواب نہیں ہے۔‘‘ ’’ارے!‘‘ میں حیرت سے چلّایا۔۔۔ ’’ہانڈی اور اسلام کا کیا جوڑ ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’بھائی صاحب! ہانڈی متوازن خوراک ہے اور اسلام متوازن مذہب ہے۔ اسلام میں ہانڈی کی سب خوبیاں موجود ہیں۔ دنیا بھی ہے، اللہ بھی ہے، اُس کی مخلوق بھی ہے، مخدومی بھی ہے، محبّت بھی ہے، جہاد بھی ہے، انتقام بھی ہے، رحم بھی ہے، معافی بھی ہے، سزا بھی ہے۔ کیا Balanced مذہب ہے بھائی جی! دنیا سے بھی تعلّق قائم رہے، اللہ سے بھی تعلّق قائم رہے۔ کماؤ کماؤ، حلال دولت کے ڈھیر لگا دو، مگر پھر بانٹ کے کھاؤ۔ اپنے لئے بنگلہ بناؤ تو کسی غریب کے لئے ایک جھونپڑا بنا دو۔
اپنے لئے ریشمی سوٹ بناؤ تو کسی حاجت مند کے لئے کھدر کا جوڑا بنوا دو۔ اپنی اولاد کی فیس دو تو کسی غریب کی اولاد کی فیس بھی ادار کر دو۔ اسلام بھی کیا مذہب ہے! بےشک حلال دولت کی ریل پیل ہو، لیکن دولت ایک جگہ ڈھیر نہ ہو، چلتی پھرتی رہے۔ بانٹنا سیکھ لو تو سرمایہ دارانہ نظام قائم نہیں ہوتا۔