ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ کو بیس ہزار پونڈ مل جائیں تو آپ انہیں کیسے خرچ کریں گے؟ ولیم رنڈولف ہرسٹ کی ماہانہ 200,000 پونڈ تھی یایوں کہہ لیجئے کہ روزانہ ساٹھ ہزار پونڈ۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اس کتاب کے ایک باب کے پڑھنے میں آپ جتنا وقت صرف کر رہے ہیں۔ اتنی دیر میں اس کی آمدنی میں تقریباً بیس پونڈ کا اضافہ ہو جاتاتھا۔
ولیم رنڈولف ہرسٹ کو کبھی کسی نے اس کے اصلی نام سے نہیں پکارا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے گہرے دوست بھی اسے ’’ڈبلیو آر‘‘ کہتے تھے۔ اور اپنے ستر ہزار ملازموں میں وہ ’’سرکار‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔وہ چوبیس اخباروں اور نو رسالوں کا مالک تھا۔ جنہیں کروڑوں لوگ بڑے ذوق شوق سے پڑھتے تھے۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ دولت مند اور بارسوخ ناشر تھا۔ پورے امریکہ میں ہر لکھا پڑھاشخص اس کے نام سے واقف تھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کی ذاتی زندگی انتہائی پراسرار تھی۔ یہاں تک کہ ایک عام آدمی بھی ولیم رنڈولف ہرسٹ کی نسبت مہاتما گاندھی کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ کچھ جانتا تھا۔امریکہ کے اس سب سے بڑے ناشر کے بارے میں مجھے جوبات سب سے زیادہ عجیب محسوس ہوئی، وہ یہ تھی کہ یہ شخص بے حد شرمیلا اور چپ چاپ تھا۔ کوئی پچاس سال اس کے مشہور ترین شخصیات سے تعلقات رہے لیکن اس کے باوجود وہ اس بات سے بہت ہچکچاتا تھا کہ اسے اجنبی لوگوں سے متعارف کرایا جائے۔کیلے فورنیا میں اس کی بہت بڑی جاگیر تھی۔ جہاں ہر وقت کم از کم پچاس ساٹھ مہمانوں کا تانتا بندھا رہتاتھا لیکن اس کا اپنا پسندیدہ مشغلہ یہ تھا کہ جہاں تک ہو سکے تنہائی میں وقت گزارا جائے۔ جب وہ نیو یارک میں رہتا تھا تو اسے بس ایک ہی شوق تھا اور وہ یہ کہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں بیٹھ کر آنے جانے والوں کا نظارہ کرتا رہے۔
مغربی ملکوں میں غالباً سب سے عظیم الشان جاگیر کیلے فورنیا میں ہرسٹ کا مویشی خانہ تھا۔ اس مویشی خانے کا رقبہ کوئی اڑھائی لاکھ ایکڑ تھا اور یہ سمندر کے کنارے پچاس میل تک پھیلا ہوا تھا۔بحراوقیانوس کے ساحل پر سطح سمندر سے کوئی دو ہزار فٹ کی بلندی پر اس نے ایک قلعہ نما حویلی بنوا رکھی تھی۔ جس کا نام ’’جادو کی پہاڑی‘‘ تھا۔ اس حویلی کو سجانے کے لیے اس نے لاکھوں پونڈ خرچ کیے تھے۔
اس کی دیواروں پر فرانس کے شاہی محلوں کے خوب صورت پردے آویزاں تھے اور انہی دیواروں پر ریمراں روبنز اور رافیل جیسے عظیم ترین فن کاروں سے نقش و نگار بنوائے گئے تھے۔ اس کے مہمان ایک بہت بڑے ہال میں کھانا کھاتے تھے۔ جس میں نادر قسم کا ساز و سامان رکھا ہوا تھا۔ لیکن دوپہر کے کھانے کے وقت ان مہمانوں کو کپڑے کے رومالوں کی جگہ کاغذ کے رومال دیے جاتے تھے۔
اس کے پاس جنگلی جانوروں کی اتنی بڑی فوج تھی کہ دنیا کے مشہور ترین جرمن سرکس بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتے تھے۔ جس پہاڑی پر یہ حویلی تعمیر کی گئی تھی۔ وہاں کئی زرافے، بیل، کنگرو ادھر ادھرپھرتے رہتے تھے۔ درختوں پر عجیب و غریب قسم کے پرندے چہچہاتے تھے اوراس کے ذاتی چڑیاگھر میں شیر اور چیتے دھاڑتے رہتے تھے۔میرا ایک دوست فرینک مینس، فرانس میں ولیم رنڈولف ہرسٹ کے لیے پرانی اور نادر چیزیں خریدا کرتاتھا۔
ہرسٹ نادر اشیاء کے جہاز کے جہاز خرید لیتا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات پورے قلعہ کا سودا کر لیتااور انہیں بکسوں میں بند کرکے امریکہ لے آتا۔ ان میں سے ہر اینٹ، پتھر اور لکڑی کے ٹکڑے پر نمبر اور لیبل لگا ہوتا تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کی اصل جگہ کہاں ہے؟ اور بعد میں انہیں جوڑ کر ہوبہو ویسی ہی عمارت کھڑی کی جا سکے۔اس نے فن کے اتنے نمونے خریدے کہ آخر کار اسے ان چیزوں کو رکھنے کے لیے جو زیراستعمال نہ تھیں، نیویارک میں ایک بہت بڑا گودام خریدنا پڑا۔
اس گودام کی دیکھ بھال پر سالانہ بارہ ہزار پونڈ خرچ آتا تھا اور اس میں پرانے گھڑیالوں سے مصر کی حنوط شدہ نعشوں تک سب کچھ تھا۔ولیم رنڈولف ہرسٹ کا باپ میسوری کے ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ 1849ء کی جنگ میں اس نے مغربی فوجوں کی سربراہی کی۔ لق و دق صحراؤں میں کوئی دو ہزار میل پیدل چلا۔ جگہ جگہ مقامی باشندوں سے جنگیں لڑیں، سونے کی کانیں دریافت کیں اور کروڑ پتی بن گیا۔ جب بوڑھا ہواتو اسے اپنی جاگیر میں ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھے رہنے کابہت شوق تھا۔
بعد میں ولیم رنڈولف ہرسٹ نے محسوس کیاکہ اس درخت کی وجہ سے اس کے کمرے کی ایک کھڑکی سے سمندر کے نظارے میں بہت رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ اس درخت کو کٹوا دے۔ جس سے کبھی اس کے باپ دادا کو والہانہ محبت تھی۔ چنانچہ اس نے اس درخت کو تیس فٹ کے فاصلے پر منتقل کرنے کے لیے آٹھ ہزار پونڈ ادا کیے۔ وہ جانوروں کا بہت شوقین تھا۔
مثال کے طور پر ایک روز فلمسازوں کا ایک گروہ مسٹر ہرسٹ سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے ہالی ووڈ سے اس کے ہاں آیا اور انہیں محض اس وجہ سے کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا کہ وہ اس وقت اپنے ایک زخمی چیتے کی تیمار داری کر رہا تھا ایک اور موقع پر اس نے اپنے ایک جانور کے طبی معائنے کے لیے ڈاکٹر کو سو پونڈ فیس ادا کی۔ تقریباً اسی سال کی عمر میں ولیم رنڈولف ہرسٹ ٹینس کا اچھاکھلاڑی بن گیاتھا۔
وہ چالیس سال سے ٹینس کھیل رہا تھا لیکن اس کے باوجود اپنے کھیل کوزیادہ بہتر بنانے کے لیے استاد سے برابر ہدایت لیتا تھا وہ اچھا شوقیہ فوٹو گرافر بھی تھا اور ہر سال ہزاروں تصاویر اتارتا تھا۔ اس کابندوق کا نشانہ اب بھی لاجواب تھا۔ ایک روز اس نے گھوڑی پر بیٹھے بیٹھے اپنے دوستوں کے سامنے پستول اپنی ران پر رکھتے ہوئے ایک اڑتے ہوئے پرندے پر فائر کیا اور اسے زمین پر گرا لیا۔ وہ ایک اچھا مشاق رقاص اور ایک بہترین داستان گو بھی تھا۔
اس کی یادداشت انسائیکلوپیڈیا کی طرح تھی۔ مثال کے طورپر اگر آپ اس سے پوچھتے کہ ہنری ہشتم کی بیویوں کے نام کیا تھے؟ اور امریکہ میں کون کون لوگ صدر کے عہدے پر فائز رہے تھے تو سوچے بغیر ایسے سوالوں کے جواب دے سکتاتھا۔ ایک روز جمی واکر اور چارلی چپلن ہرسٹ کے مویشی خانے کی سیر کر رہے تھے، دونوں کے درمیان بائبل کے ایک جملے کے اصل الفاظ کے بارے میں بحث چھڑ گئی۔ ہرسٹ نے یہ جملہ لفظ بہ لفظ دہرا کر اس بات کا فیصلہ کرا دیا۔
اسے اس بات کا بھی شوق تھا کہ اس کے آس پاس ہمیشہ نوجوان لوگ رہیں۔ اس نے اس بات کی سخت ہدایت دے رکھی تھی کہ اس کی موجودگی میں کوئی موت کا ذکر نہ کرے۔ ہرسٹ کو ورثہ میں 6,000,000 پونڈ ملے تھے۔ وہ چاہتا تو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر مزے سے زندگی گزار دیتا لیکن اس نے ایسا نہ کیا۔ اس کے برعکس وہ کوئی ساٹھ سال تک روزانہ آٹھ سے پندرہ گھنٹے کام کرتا تھا۔ اس نے یہ تہیہ کر رکھاتھا کہ وہ اس وقت تک کام سے دست بردار نہیں ہو گا جب تک اللہ تعالیٰ کا بلاوا نہ آ جائے۔