بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

حیاتِ مبارکہ حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ 604 ہجری کو بلخ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم والد بزرگوار حضرت شیخ بہاؤالدین سےحاصل کی جو اپنے وقت کے بڑے عالم اور مشہور بزرگ تھے۔ آپ کا خاندانی نام محمد جلال الدین لقب اور عرفیت مولائے روم ھے۔ آپ کا سلسلہ نسب خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق تک براہِ راست پہنچتا ہے آپ کے دادا حضرت حسین بلخی بہت بڑے صوفی اور کمال بزرگ تھے۔

خوارزم شاہ جیسے باجبروت حکمران نے اپنی بیٹی کی شادی مولانا روم کے دادا سے کر دی۔ علم و فضل کے ساتھ اس خاندان کو دنیاوی عزت و توقیر بھی حاصل تھی۔ آپ کےوالد حضرت شیخ بہاوالدین نے مولانا جلال الدین رومی کی تربیت اپنے مرید حضرت سید برہان الدین کے سپرد کر دی۔ مولانا نے ظاہری علوم سید برہان الدین سےحاصل کئے۔ انیس سال کی عمر میں آپ اپنے والد گرامی کے ہمراہ قونیہ تشریف لے گئے یہیں پر آپ کو شفقت پدری کی بےوقت جدائی کا صدمہ سہنا پڑا۔ کم عمری میں یہ صدمہ کوئی کم گراں نہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کی دولت اور حوصلےسےنوازا۔ آپ نےغم کو بھلانے کیلئے خود کتابوں میں گم کر لیا۔ 629 ھجری میں پچیس سال کی عمر میں آپ نے مزید تعلیم کے حصول کیلئے شام کا رخ کیا۔ یہاں آپ سات سال تک مقیم رہے۔ پھر واپس قونیہ آگئے۔ انہی دنوں آپ کے استاد اور ابتدائی تربیت کرنے والے سید برہان الدین بھی قونیہ پہنچ گئے انہوں نے مختلف علوم میں آپ کا امتحان لیا۔ جب آپ استاد مکرم کے پیمانہ پر پورے اترے تو ایک دن انہوں نے فرمایا۔ مخدوم زادے! اب وقت آگیا ہے کہ میں تمہارےوالد کی امانت تمہیں لوٹا دوں اس کےبعد آپ نے سید برہان الدین کے ہاتھ پر بیعت کی اور 9 سال تک پیرومرشد کے ہاں قیام پذیر رہے۔ والد گرامی اور استاد مکرم کی تربیت نے مولانا رومی کو درجہ کمال پر پہنچا دیا۔ اب آپ کا عالم یہ تھا کہ جب کسی علمی تقریب میں تقریر کرنے کھڑے ہو جاتے تو لوگ پتھر کی طرح ساکت ہو جاتے اور ان پر وجد طاری ہو جاتا۔

مولانا روم ظاہری تعلیم و تربیت کے تمام مراحل طے کر چکے تو آپ کی شہرت اور محبوبیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ حاسدین نے جتنی بھی سازشیں آپ کے خلاف کیں وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے ناکامی سے ہمکنار ہوئیں بلکہ دشمن کی سازشوں نے آپ کی عزت و توقیر میں مزید اضافہ کر دیا۔ آپ اکثر و بیشتر تنہائی اور دوستوں کی محفل میں تشنگی کا شدت سے اظہار فرماتے جب دوست اس بارے میں پوچھتے تو آپ فرماتےکہ مجھےخود بھی علم نہیں کہ یہ پیاس کیسی ہے۔

لیکن یوں محسوس ہوتا ہےکہ میری روح ابھی تشنہ ہے۔ بہت دنوں تک آپ کی یہی کیفیت جاری رہی۔ پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا کہ جس نےمولانا روم کی زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ مولانا کا کتب خانہ نادر و نایاب تصنیفات کا بیش قیمت خزانہ تھا۔ ایک دن مولانا روم اسی کتب خانے میں شاگردوں کو درس دے رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی شخص اجازت کے بغیر کتب خانے میں چلا آیا۔ اجنبی نے آتے ہی اہل مجلس کو سلام کیا پھر حاضرین کی صفوں سے گزرتا ہوا مولانا روم کے قریب جا بیٹھا۔

مولانا کے شاگردوں کو اجنبی کی یہ بےتکلفانہ اد اسخت ناگوار گزری لیکن استاد کے احترام میں انہوں نے اجنبی کو کچھ نہ کہا مولانا روم کو اس اجنبی کی یہ حرکت اچھی نہ لگی۔ لیکن انہوں نےبھی خاموشی بہتر سمجھی۔ مولانا روم کا درس جاری تھا لیکن اجنبی کو درس سے کوئی دلچسپی نہ تھی وہ بار بار قیمتی کتابوں کے ذخیرے کو دیکھ رہا تھا۔ آخر اس سےضبط نہ ہوا وہ درس کے دوران ہی بول اٹھا۔ مولانا! یہ کیا ہے اجنبی نے کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ مولانا روم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا۔

آپ کو اجنبی کی جاہلانہ مداخلت سے اذّیت ہوئی لیکن مولانا نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔ پھر اجنبی سےمخاطب ہو کر فرمایا کہ ذرا صبر کرو اپنا کام مکمل کر لوں پھر تمہارے سوال کا جواب دوں گا۔ اس کے بعد اجنبی نے دوبارہ کوئی سوال نہ کیا اور مسلسل کتب خانے کو دیکھنے لگا۔ درس ختم ہونے کے بعد مولانا اجنبی کی طرف متوجہ ہوئے جس کی ناشائستہ حرکات نے حاضرین مجلس کو اذّیت میں مبتلا کیا تھا۔ ”آپ کون ہیں اور یہاں کس لئے تشریف لائے ہیں“ مولانا نے اجنبی سے مخاطب ہو کر پوچھا۔

”مولانا! آپ میرے بارے میں دریافت نہ کریں کہ میں کون ہوں؟“ اجنبی نے بڑی بے رخی سےکہا۔ بس مجھے میرے سوال کا جواب چاہئے یہ کیا ہے۔ اجنبی کا اشارہ کتابوں کی طرف تھا۔ یہ سن کر مولانا کا لہجہ تلخ ہو گیا اور اجنبی سے فرمایا تمہاری بینائی کمزور ہے۔ ہر گز نہیں۔ اجنبی نے اسی بےنیازی کے ساتھ جواب دیا۔ میں تو بہت دور تک دیکھ سکتا ہوں۔ تمہیں نظر نہیں آتا کہ یہ کیا ہے“ مولانا نے جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے کہا۔ مجھے تو بہت کچھ نظر آرہا ہے لیکن میں آپ کی زبان سے سننا چاہتا ہوں۔

اجنبی نے ایک بار پھر اپنا سوال دھرایا۔ مولانا روم کا لہجہ مزید تلخ ہو گیا اور فرمایا ”یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔“ مولانا کا جواب سن کر اجنبی کھڑا ہو گیا پھر اس نے کتابوں کی طرف اشارہ کیا اور ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔ ”اچھا یہ وہ ہے جسے میں نہیں جانتا۔“ ابھی اجنبی کےالفاظ کی گونج ہوا میں باقی تھی کہ یکایک کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور مولانا روم کی نادر و نایاب کتابیں جلنے لگیں۔ یہ سب کچھ اس قدر اچانک اور ناقابل یقین تھا کہ مولانا دم بخود رہ گئے اور حاضرین پر سکتہ طاری ہو گیا۔

اجنبی بےنیازی سے آگے بڑھا۔ مولانا نے پکار کر کہا ”اےشخص! یہ کیا ہے؟“ مولانا نے بھڑکتے ہوئے شعلوں کی طرف اشارہ کیا۔ اجنبی مسکرایا مولانا سے مخاطب ہو کر بولا یہ وہ ہے جسے آپ نہیں جانتے اتنا کہہ کر اجنبی واپس جانے لگا۔ مولانا کے ہونٹوں سےسرد آہ نکلی۔ ہائے میری نادر و نایاب کتابیں۔ اے شخص! تیری وجہ سے سب کچھ راکھ ہو گیا۔ اجنبی جاتے جاتے رک گیا پھر مڑ کر مولانا سے مخاطب ہو کر کہا۔ اگر یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے تو پھر میں تمہیں یہ کتابیں واپس کرتا ہوں۔

یہ کہہ کر اس نے ہاتھ کااشارہ کیا اور آگ کے بھڑکتے شعلے یکدم بجھ گئے آگ کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس کے بعد اجنبی کچھ کہے بغیر تیزی سے چلا گیا۔ اجنبی کے جانے کے بعد کچھ دیر تک مولانا روم حیرت زدہ کھڑے رہے پھر اپنی کتابوں کی طرف بڑھے آپ کا خیال تھا کہ کچھ کتابیں جل چکی ہوں گی۔ لیکن حاضرین سمیت سب کو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ کتابوں کا ایک ایک ورق اور ایک ایک لفظ بالکل صحیح سلامت تھااور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ گویا کتب خانےمیں آگ لگی ہی نہیں تھی۔

مولانا نے اجنبی کو تلاش کیا لیکن وہ کہیں بھی نہ ملے۔ وہ جس طرح پراسرار انداز میں آیا تھا اسی طرح واپس چلا گیا۔ وہ اجنبی حضرت سرکار شمس تبریز رح تھے۔ جنہوں نے ایک ہی ملاقات میں مولانا روم جیسے نابغہ روزگار عالم کی دنیا ہی بدل ڈالی اور مولانا کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ مولانا اپنی روش ہی بھول گئے۔ کتب خانہ بند کر دیا گیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اب مولانا روم کو صرف ایک کام تھا کہ وہ ہر لمحےحضرت شمس تبریز کی خدمت میں حاضر رہتے اس تبدیلی سےپورا شہرا ویران ہو گیا۔

مولانا کےعقیدت مند اس کا ذمہ دار اس اجنبی شخص کو قرار دینے لگے جس نے ان سے ان کا عالم چھین لیا تھا۔ اس پر مولانا روم یہی فرماتےکہ ”تم کیاجانو کہ شمس تبریز کون ہیں؟“۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…