بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

تھیوڈور ڈریسر،بعض اوقات وہ اس لیے سکول نہ جا سکتا کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوتے تھے

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی تھیوڈور ڈریسر کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کا ایک نمایاں اور حیرت انگیز ناول نگار تھا۔ پچیس برس تک اس نے امریکہ کے ادبی حلقوں میں تہلکہ مچائے رکھا۔ امریکی ادب پر اس کا بے حد اثر تھا۔ اگر تھیوڈور ڈریسر پیدا نہ ہوتا تو جو کتابیں آپ آج کل پڑھتے ہیں مختلف انداز کی ہوتیں۔1900ء میں اس نے ’’سسٹرکیری نامی‘‘ ایک سنسنی خیز ناول لکھا۔

اس ناول نے ادبی حلقوں میں ایک متضاد بحث کا آغاز کر دیا۔ نقادوں نے اسے غیر اخلاقی اور فحش قرار دیا۔ مذہبی مبلغوں نے معبدوں میں کھڑے ہو کر اس کی مذمت کی اور خواتین کی انجمنوں نے مشتعل ہو کر اس کی فروخت پرپابندی عائد کرنے کامطالبہ کر دیا۔ ناول کا ناشر بے حد ہراساں ہو گیا اور اس نے ناول فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ تھیوڈور ڈریسر بہت حیران ہوا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر ناول میں کون سی بات غیر اخلاقی تھی۔ اس نے زندگی کو جس طرح دیکھا تھا۔ ہوبہو اس کی عکاسی کی تھی لیکن وہ 1900ء کا زمانہ تھا۔ اب کوئی شخص اس ناول پر غیراخلاقی ہونے کا الزام نہیں لگا سکتا تھا۔ اگر آپ ’’سسٹر کیری‘‘ کے پہلے ایڈیشن کی کوئی جلد خریدنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو بہتر پونڈ خرچ کرنا پڑیں گے۔ ایک دفعہ میں اس حیرت ناک آدمی سے ملنے گیا۔ وہ اس قدر بے تکلف واقع ہوا کہ میں حیران رہ گیا۔ جب کبھی وہ کسی پارٹی وغیرہ میں جاتا تو ایک مسئلہ بن جاتا۔ کیونکہ وہ اپنے خیالات کو بغیر کسی ردو بدل کے من و عن بیان کر دیتا تھا۔ مثلاً ایک دفعہ ایک دعوت کے موقع پر روس کے متعلق ایک شخص سے بحث چھڑ گئی۔ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اس نے اپنے مخالف کو احمق اور چور تک کہہ ڈالا۔اس نے امریکی زندگی کے متعلق سب سے موثر المیہ ناول لکھاہے۔ اس کا عظیم ناول ’’ایک امریکی ٹریجڈی‘‘ 1925ء میں شائع ہوا۔

اس زمانے میں اس کی مالی حالت بہت خراب تھی۔ کمرے کا کرایہ دینے کے لیے بھی اس کے پاس پیسے نہ ہوتے تھے۔ لیکن اس ناول کی اشاعت نے امریکہ میں سنسنی پھیلا دی اور اس کا معاوضہ اسے 80,000 ہزار پونڈ ملا، اس ناول کی فلم بنانے کے لیے ہائی ووڈ والوں نے اسے 40,000 پونڈ دئیے۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے اتنی ساری رقم کا کیا کیاتھا۔ جواب دیا کہ میں نے بہت سے سٹاک اور بانڈز خریدے مگر مجھے 40,000 پونڈ کا خسارہ اٹھانا پڑا۔

تھیوڈور ڈریسر نچلے طبقے کے لوگوں کے بارے میں لکھتا ہے کیونکہ وہ اس قسم کے ماحول میں پیدا ہوا اور وہیں اس کی پرورش ہوئی تھی۔ ان کی ماں لوگوں کے کپڑے دھو کر اپنے تیرہ بچوں کے پیٹ پالنے کی کوشش کرتی۔ ننھے تھیوڈور ڈریسر کو اس ماحول میں اکثر بھوکا رہنا پڑتا۔ اس کے پاس سونے کے لیے کوئی بستر نہ تھا۔ لہٰذا وہ ایک کتے کی طرح سردی سے سکڑ کر گھانس پھوس کی چٹائی پر سو جاتا۔ بعض اوقات وہ اپنے گھر کوگرم کرنے کے لیے ریل کی پٹڑی پر سے چھوٹے چھوٹے کوئلے اٹھا لاتا۔

کئی دفعہ وہ محض اس لیے سکول نہ جاتا کہ اس کے پاس جوتے نہ ہوتے تھے۔لیکن سکول میں وہ بڑا ضدی واقع ہواتھا۔ جو چیزیں اسے پڑھنے کے لیے کہا جاتا۔ وہ ہمیشہ اس کی مخالفت کرتاتھا۔ اسے ریاضی اور گرائمر سے سخت نفرت تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کبھی گرائمر کا مطالعہ نہ کیا۔ اور نہ ہی مستقبل میں اس قسم کا کوئی ارادہ ہے۔ اس نے قسم کھا کر کہا کہ اگر محکمہ تعلیم اس کے اختیار میں آ جائے تو وہ انگریزی ادب اور گرائمر کی تمام کلاسیں ختم کر دے۔

صحافت اور کہانیاں لکھنے کی کلاسیں بند کر دے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح کبھی کوئی ادیب نہیں ہو سکتا۔تھیوڈور ڈریسر نے اچانک ایک روز فیصلہ کیا کہ وہ اخباری نمائندہ بنے گا۔ لہٰذا اس نے ’’شکاگو گلوب‘‘ میں ملازمت کے لیے درخواست دے دی۔ اخبار والوں نے جواب میں لکھا کہ انہیں مزید آدمی کی ضرورت نہیں ہے لیکن وہ اخبار کے دفتر میں کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا اور ان سے کہہ دیاکہ جب تک وہ اسے ملازم نہیں رکھیں گے۔ وہ وہاں سے ہرگز نہ ہلے گا۔

وہ ہر روز وہاں آتا اور صبح سے شام تک وہیں بیٹھا رہتا۔ ایک ماہ تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہ 1891ء کا ذکر ہے۔ جب اسی سال جون میں شکاگو میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن منعقد ہونے کاوقت آیا تو اخبار کو ایک فالتو رپورٹر کی ضرورت پڑی۔ لہٰذا اسے اخبار میں جگہ مل گئی، تب ایک ناقابل یقین واقعہ رونماہوا۔ یہ نیا رپورٹر جس نے کبھی اخبار میں ایک سطر تک نہ لکھی تھی۔ دوسرے رپورٹروں کے ہمراہ ایڈوٹوریم ہوٹل کی بار میں بادہ آشامی میں مشغول تھا۔

دوسرے رپورٹر کہہ رہے تھے کہ نہ جانے ڈیمو کریٹک پارٹی صدر کے الیکشن کے لیے اپناکون سا امید وار نامزد کرے گی۔ ڈریسر نے دوچار جام چڑھا رکھے تھے اور کھلنے کے موڈ میں تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی صدر کے لیے اپنا کون سا امیدوار نام زد کر رہی ہے، ایک غیر متوقع شخص سینیٹر مکنئٹی، اسی وقت سینیٹر مکنئٹی بار روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اور کہنے لگا کہ ’’میرا نام لے کر میری عزت افزائی کی ہے۔‘‘

ڈریسر نے اپنا نام لیا۔ سینیٹر مکنئٹی نے اس سے کہا بہت خوب، آؤ بیٹھ کر شراب پئیں۔ پانچ منٹ بعد اس نے ڈریسر کو کھانے کی دعوت دی۔ کھانے کے بعد سینیٹر مکنئٹی نے اس سے کہا، میرا خیال ہے کہ تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے میرے ساتھ واشنگٹن چلو۔تھوڑی دیر بعد سینیٹر مکنئٹی نے دوبارہ اسے مخاطب کرکے کہا ’’لڑکے سنو میں تمہیں ایک راز بتانے والاہوں۔‘‘ صدر کے الیکشن کے سلسلے میں گردورکلیوی نیڈ کا نام منتخب ہوچکاہے تم پہلے اخباری نمائندے ہو جسے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔

ڈریسر اس بات کے لیے تیار نہ تھا۔ وہ حیران رہ گیا۔ اسے اخبار میں کام کرتے ہوئے فقط دو روز ہوئے تھے اور اس نے سال کی اہم ترین خبر حاصل کر لی تھی۔ چند ماہ بعد اسے ایک دوسرے اخبار نے ملازمت کی پیش کش کی۔ وہاں کام کرتے ہوئے اسے تین ماہ گزرے تھے کہ اخبار میں ڈراموں پر تبصرہ کرنے والے ایڈیٹر نے استعفیٰ دے دیااور یہ کام ڈریسر کے سپرد ہوا۔ وہ حیران تھا کہ یہ کام اس کے سپرد کیوں کیاگیا۔ کیونکہ وہ تھیٹر کے متعلق کچھ نہ جانتا تھا۔ایک رات سینٹ لوئس تھیٹر میں چار شو ہوئے تھے۔

ڈریسر فقط ایک شو دیکھ سکا۔ اور باقی تین کے متعلق انہیں دیکھے بغیرتبصرہ لکھ مارا۔ اس نے تبصرہ اس انداز میں لکھا کہ جیسے اس نے سب کچھ دیکھا ہے۔ اس نے بعض ایکٹروں کی اداکاری پر فقرے بھی چست کیے۔ دوسرے دن جب یہ تبصرہ اخبار میں شائع ہواتو اسے پتا چلا کہ باقی تین شو ملتوی ہو گئے تھے۔وہ اس قدر شرمندہ ہوا کہ اس نے اخبار سے استعفیٰ دے دیا۔جب میں نے اس سے اس کی کامیابی کا راز پوچھا تو اس نے فقط اتنا کہا ’’یہ سب خدا کی دین ہے۔‘‘

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…