بدھ‬‮ ، 24 ستمبر‬‮ 2025 

ولیم شیکسپیئر،اس کے قصبے کے لوگوں نے اسے عزت کے ساتھ دفن کیا، کیونکہ وہ انہیں زیادہ شرح سود پر قرض دیا کرتا تھا

datetime 10  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیل کارنیگی کہتے ہیں کہ جب تک ولیم شیکسپیئر زندہ رہا۔ اسے کسی نے بالکل اہمیت نہ دی۔ اس کی موت کے ایک سوبرس بعد بھی اس کا نام گم نامی کے غبار میں چھپا ہوا تھا لیکن اس وقت سے اب تک اس کے متعلق لاکھوں الفاظ کہے جاچکے ہیں۔ دنیا ادب میں اس سے زیادہ کسی ادیب کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ ہر سال ہزاروں لوگ اس گھر کی زیارت کے لیے جاتے ہیں جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔

ایک دفعہ 1921ء میں مجھے بھی وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں سٹراٹ فورٹ سے توٹری تک اکثر پیدل گھوما کرتاتھا۔ یہی وہ کھیت تھے۔ جنہیں جوانی کے ایام میں وہ عبور کرکے وہ اپنی محبوبہ این ویٹلی کو ملنے جایا کرتا تھا۔اس وقت ولیم شیکسپیئر کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک روز اس کا نام ادبی افق پر روشن ستارہ بن کر صدیوں چمکتا رہے گا۔ اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کی جوان محبت کا انجام نہایت درد ناک ہوگا اور اسے برسوں دست تاسف ملنا پڑے گا۔اس میں شک نہیں کہ ولیم شیکسپیئر کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ اس کی شادی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اسے این ویٹلی سے والہانہ محبت تھی۔ لیکن وہ چاندنی رات کے پچھلے پہروں میں ایک اور لڑکی این ہاتھاوے کے ساتھ بھی معاشقہ بازی کیا کرتاتھا۔ جب این ہاتھاوے کو معلوم ہوا کہ اس کا عاشق ایک دوسری لڑکی سے شادی کرنے کے لیے لائسنس حاصل کر رہا ہے تو اس نے ہمسایوں کے گھر جا کر واویلا مچاناشروع کر دیا اور انہیں بتایا کہ وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ لہٰذا ولیم کو اس کے ساتھ شادی پر مجبور کیاجائے۔ اس کے سادہ لوح اور دیانت دار دہقانی ہمسایے ولیم کی اس حرکت پر لال پیلے ہوگئے۔ ان کا اخلاقی احساس ایک دم ابھر آیا۔ دوسرے دن ہی وہ قصبے کے ٹاؤن ہال میں گئے۔ اور متعلقہ افسر سے بات چیت کرکے ولیم شیکسپیئر اور این ہاتھاوے کی شادی کی بات پکی کر آئے،

قانونی اعتبار سے ولیم شیکسپیئر بھی این ہاتھاوے سے شادی کرنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ولیم شیکسپیئر کی بیوی اس سے آٹھ برس بڑی تھی۔ اور شروع ہی سے ان کی گھریلو زندگی بے حد تلخ ہوگئی۔ اس نے اپنے ڈراموں میں متعدد بار مردوں کواپنی عمر سے بڑی عورتوں سے شادی نہ کرنے کی تنبیہ کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ این ہاتھاوے کے ساتھ بہت کم رہا۔ اس کی بیاہتا زندگی کا زیادہ تر حصہ لندن میں گزرا اور وہ سال میں ایک آدھ بار ہی گھر جایا کرتاتھا۔

آج سٹراٹ فورٹ لندن کا ایک قصبہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے باغیچوں میں گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکان اور بل کھاتی ہوئی صاف ستھری گلیاں لیکن ولیم شیکسپیئر کے زمانے میں یہ قصبہ بے حد غلیظ، افلاس زدہ اور بیماریوں کا مرکزتھا۔ پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہ تھا اور گلیوں میں سوروں کی ٹولیاں عام پھرا کرتی تھیں اور ان کے ہتھے جو چیز چڑھتی اسے ہضم کر جاتے تھے۔

ولیم شیکسپیئر کا والد قصبے کا ایک معزز باشندہ تھا لیکن ایک دفعہ اپنے گھر کے سامنے اسے غلاظت کا ڈھیر جمع کر رکھنے پر اسے جرمانہ بھی کیاگیا۔ہم بعض اوقات سوچتے ہیں کہ ہمارے دن بڑے سخت اور تلخ ہیں۔ لیکن ولیم شیکسپیئر کے زمانے میں سٹراٹ فورڈ کی نصف آبادی دوسروں کی خیرات اور مدد پر گزارا کرتی تھی۔ لوگوں کی بڑی تعداد ناخواندہ تھی۔ نہ تو ولیم شیکسپیئر کا والد اور نہ ہی والدہ اور نہ اس کے بہن بھائی اور نہ ہی اس کی اولاد پڑھنا لکھنا جانتی تھی۔

وہ شخص جس نے انگریزی ادب کی عظمت اور انگریزی ادبی قوت متحرکہ بننا تھا، اسے مالی مجبوریوں کی بناء پر تیرہ برس کی عمر میں تعلیم ترک کرکے کام پر جانا پڑا، اس کا والد دستانے بنانے کے علاوہ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ ولیم شیکسپیئر اپنے والد کے ہمراہ بھینسوں کا دودھ دوہتا، بھیڑیں چراتا، دودھ سے مکھن نکالتا اور باپ کے ہمراہ ہڈیاں اور چمڑہ صاف کرتا۔لیکن جب ولیم شیکسپیئر فوت ہواتو وہ اپنے زمانے کے معیار زندگی کے لحاظ سے امیر تھا۔

لندن کے پانچ برس کے اندر اندر ایک ایکٹر کی حیثیت سے وہ خاصی رقم کما رہاتھا۔ اس نے دو تھیٹروں میں اپنے حصے خرید لیے۔ اور وہ زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض بھی دینے لگا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس کی سالانہ آمدنی تین سو پونڈ ہو گئی لیکن اس زمانے میں ضرورت زندگی آج کے مقابلے میں بارہ گنا کم تھیں۔ جب ولیم شیکسپیئر پینتالیس برس کا ہوا تو اس کی سالانہ آمدنی چار ہزار پونڈ تھی۔لیکن آپ کے خیال کے مطابق وہ اپنے وصیت نامے میں اپنی بیوی کے نام کس قدر رقم لکھ گیاہو گا۔

ایک پائی بھی نہیں۔ فقط بستر کی دو چادریں، اوروہ بھی اس نے وصیت لکھنے کے بعد حرف مکدر کے طورپر لکھی تھیں۔اس کے تمام ڈرامے ایک کتاب کی شکل میں شائع ہونے سے سات برس پہلے ہی ولیم شیکسپیئر فوت ہوگیا۔ اگر آج آپ امریکہ میں کسی کتاب کا اصلی مسودہ خریدنا چاہیں تو اس کے لیے آپ کو اڑھائی لاکھ پونڈ دینے پڑتے ہیں۔ لیکن ولیم شیکسپیئر اپنے ’’ہیملٹ‘‘ اور ’’میکینو‘‘ کا معاوضہ ایک سو پونڈ سے زیادہ حاصل نہ کر سکا۔ڈاکٹر ایس اے ٹینین بام نے ولیم شیکسپیئر کے بارے میں بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔

ایک دفعہ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ شیکسپیئر کے لکھے ہوئے ڈرامے اسی ولیم شیکسپیئر کی تخلیق ہیں جو سٹراٹ فورڈ میں رہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس کے متعلق مجھے اتنا ہی یقین ہے کہ جتنا اس بات کا کہ ابراہام لنکن نے اپنی شہرہ آفاق تقریر گیٹس برگ میں کی تھی۔ اس کے باوجود بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ولیم شیکسپیئر نام کا کوئی شخص نہ تھا اور یہ ثابت کرنے کے لیے اس کے ڈرامے سرفرانسس بیکن یا ارل آف آکسفورڈ کی تخلیقات ہیں،

درجنوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔میں نے اکثر ولیم شیکسپیئر کی قبر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کتبہ پڑھا ہے کہ اچھے دوستو! میں تمہیں یسوع کے نام کا واسطہ دیتا ہوں کہ میری خاک کریدنے کی کوشش نہ کرتا، اچھے لوگو میری ہڈیوں پر رحم کرو۔ اگرتم نے انہیں کریدا تو خدا کا عتاب نازل ہو گا۔اسے قصبے کے گرجے کے معبد کے سامنے دفن کیاگیا۔ آخر اسے یہ امتیازی جگہ کیوں ملی؟ اس کی ادبی عظمت کے سبب؟۔ بالکل نہیں۔ یہ شاعر جس نے ادبی ستارہ بن کر چمکناتھا۔ اسے چرچ میں محض اس لیے جگہ دی گئی کہ وہ لوگوں کوقرض دیا کرتاتھا۔ اگر یہ شخص جس نے شائی لاک کا کردار تخلیق کیاتھا۔ اپنے قصبے کے لوگوں کو قرض نہ دیاکرتا تو اس کی ہڈیاں آج کسی گم نام قبرمیں گل سڑ چکی ہوتیں۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



احسن اقبال کر سکتے ہیں


ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…